65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (40)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط 40)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت مولانا الطاف حسین سمستی پور کے تھے۔ ایک مدت تک مہمان خانے میں ہی ایک کمرے میں بود و باش اختیار کی۔ بچے سمستی پور رہتے تھے، جو بچہ کچھ بڑا ہوتا، اسے پڑھنے کے لئے سہارنپور لے آتے۔


مظاہر علوم وقف سہارنپور میں عملہ کو کھانا نہیں دیا جاتا، یعنی قیمتا لینا پڑتا ہے اور یہ اس کی ایک سو ساٹھ سالہ روایت رہی ہے۔ اس لئے مولانا قیمتا کھانا لیتے تھے۔ اور کمال کی بات یہ تھی کہ خود ہی ٹفن وغیرہ لے کر مطبخ جاتے اور کھانا لاتے، اپنے کپڑے خود دھوتے، اپنا سارا کام حتی کہ کھانے کے وقت پانی خود ہی لاتے تھے۔ یعنی دست چمخود دہان خود والا معاملہ تھا۔


پھر اللہ تعالیٰ نے پلاٹ خریدوا دیا تو بہت خوش ہوئے، اور مکان بنایا۔ بچے آگئے اور زندگی گویا روٹین پر آگئی۔ آپ کا گھر سے آنا جانا رکشہ سے ہوتا تھا۔ رکشہ والا ایک طرف سے کم از کم دس روپے لیتا، گویا ایک ماہ کے بارہ سو روپے۔


میں نے ایک رکشہ والے سے رکشہ کی قیمت پوچھی تو بتایا کہ 3500 روپے میں ملتا ہے۔ میں نے سوچا کہ مولانا کو مشورہ دوں کہ آپ ایک رکشہ خرید کر محلہ کے کسی غریب کو دے دیں اور قرار کرلیں کہ وہ گھر سے مدرسہ وقت پر لاتا لے جاتا رہے۔ ایک سال پورا ہوتے ہی رکشہ اس غریب کے حوالے کردیں، یعنی ملکیت ہو جائے۔ اس طرح مولانا کو پورے نو ماہ کی خطیر رقم بچ جائے گی، یعنی ساڑھے دس ہزار روپے سالانہ بچت۔


یہ سوچ کر میں مولانا کی خدمت میں پہنچا۔ وہاں مولانا مظفر مالکی بیٹھے ہوئے تھے۔ اب سنیے کہانی کا لذیذ ترین، مزاحیہ ترین موڑ۔


میں نے مولانا سے کہا:

"آپ اپنے گھر سے آنا جانا کرتے ہیں اور چالیس روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ آپ ایک نیا رکشہ خرید لیجیے اور۔۔۔"


قبل اس کے کہ میں آگے کچھ بولتا، مولانا مظفر صاحب بول پڑے:

"لوجی! مولانا الطاف! یہ ناصر کیا کہہ رہا ہے؟ یہ یہ کہہ رہا ہے کہ آپ ایک رکشہ خرید لیں، اسی سے آیا جایا کریں اور دو دو سواری بھی بٹھا لیا کریں تاکہ اسی روپے یومیہ آمدنی بھی ہو جایا کرے گی!"


اتنا سننا تھا کہ مولانا کا پارہ گرم ہوگیا۔ غصہ میں سرخ ہوگئے اور کہنے لگے:

"ابے ہولٹ! مجھے پہلے سے ہی شک تھا کہ ضرور کوئی اوٹ پٹانگ مشورہ دے گا۔ چلے ہیں مشورہ دینے! مجھے تمہارا مشورہ نہیں چاہیے۔"


بہرحال مولانا مظفر مالکی مرحوم نے درمیان میں بول کر اور بات کا رخ موڑ کر میرے اچھے خاصے مشورہ کا بیڑا غرق کردیا، بلکہ کچرا کردیا۔ ورنہ وہ بہت فائدے میں رہتے۔


حضرت ناظم صاحب کبھی کبھی کار میں یا ٹرین میں یا کبھی کبھی مجلس میں باقاعدہ کہتے:

"وہ واقعہ سناؤ مولانا الطاف صاحب والا۔"

میں سناتا اور ناظم صاحب خوب ہنستے۔


مولانا الطاف حسین مرحوم میری ہر بات بہت سنجیدگی کے ساتھ سنتے تھے۔ ایک بار مولانا محمد سلمان (کتب خانے والے) اور میں نے مشورہ کیا کہ چلو مولانا کے پاس بیٹھیں گے، اور تم مجھ سے مسئلہ پوچھنا کہ اگر بہت ہی آہستگی کے ساتھ خارش ہوئی کہ آدمی کو بالکل پتہ ہی نہ چلا تو مسئلہ کیا ہے۔


یہی ہوا۔ جب مسئلہ پوچھا تو میں نے نہایت ہی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا:

"دیکھو اگر معاملہ ایسا ہے کہ اتنی آہستگی کے ساتھ ہوا ہے کہ بالکل پتہ ہی نہیں چلا، تو ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔"


میں نے جواب کو ایسے لپیٹا کہ مولانا الطاف حسین مرحوم نے سمجھا کہ میں نے جواز کا فتویٰ دے دیا ہے۔ غصہ ہوگئے، چیخنے لگے اور زور زور سے کہنے لگے:

"ابے نماز ٹوٹ جائے گی! نماز ٹوٹ جائے گی!"


ایک دن میں نے ایک صاحب سے کہا کہ وہ دن بہت بابرکت تھے جب حضرت مولانا عبدالمجید مہیسروی یہاں بیٹھتے تھے، مولانا انعام تھانوی ادھر، اور مولانا علامہ یامین صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ عجیب روحانی منظر ہوتا تھا۔


میں نے ان بزرگوں میں سے صرف علامہ صاحب اور مولانا انعام تھانوی صاحب کو تو دیکھا ہے، باقی کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ لیکن میرا انداز ایسا تھا کہ مولانا الطاف حسین سمجھے کہ گویا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں نے ان لوگوں کو بالفعل دیکھا ہے۔


اتنا سننا تھا کہ مولانا نان اسٹاپ راجدھانی ایکسپریس ہوگئے۔ مولانا مظفر مالکی صاحب کہنے لگے:

"یار مولوی الطاف! ناصر نے یہ نہیں کہا کہ اس نے ان بزرگوں کو دیکھا ہے۔"


تو کہنے لگے:

"کہنے کا انداز ہی ایسا کیوں بنایا کہ میں ایسا سمجھ بیٹھا؟"


مولانا کو عربی، فارسی اور اردو کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ تلاوت کا خوب معمول تھا۔ اچھی صحت تھی۔ لیکن ایک دن حمام سے نکلے، سرچکرایا، گرے اور:

إنا لله وإنا إليه راجعون۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے