65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (60) حادثے اور سانحے



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ

حادثے اور سانحے

(قسط 60)

(ناصرالدین مظاہری)


زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ کبھی آفت کا جھونکا، کبھی حادثے کا طوفان، کبھی دکھ کا بادل، اور کبھی غم کی بجلی — انسان سمجھتا ہے کہ یہ سب تباہی ہے، مگر دراصل یہی لمحات اس کے ایمان، شعور اور قربِ الٰہی کی بنیاد بناتے ہیں۔

دنیا کا کوئی حادثہ اللہ کی مشیت سے باہر نہیں، اور جو چیز اس کی تقدیر میں آ جائے، وہ محض آزمائش نہیں بلکہ پیغامِ رحمت ہوتی ہے۔


قرآنِ مجید کی روشنی میں:


 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ

(البقرۃ)

“اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مال، جان اور پھلوں کی کمی سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔”


حادثات ہمیں گرانے نہیں آتے، بلکہ جھکنے اور سنبھلنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔

یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم خود مختار نہیں، بلکہ ایک طاقتِ برتر کے محتاج ہیں۔

کبھی اللہ تعالیٰ انہی حادثوں کے پردے میں انسان سے غفلت کے بت توڑ دیتا ہے، دل کے زنگ صاف کر دیتا ہے، اور بندے کو اپنی اصل سمت لوٹا دیتا ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:


 عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ... (مسلم)

“مومن کے معاملے پر تعجب ہے، اس کا ہر حال اس کے لیے بھلائی ہے؛ اگر اسے راحت ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔”


حادثات دراصل وہ ضربیں ہیں جن سے ایمان کی چمک نکلتی ہے۔

جس دل پر تقدیر کی چوٹ لگتی ہے، وہ اگر صبر کرے تو اللہ کے قریب تر ہو جاتا ہے۔

اسی لیے اہلِ یقین کے نزدیک حادثہ محض آزمائش نہیں بلکہ ایک پوشیدہ نعمت ہے — جو بندے کو توڑ کر، سنوار کر، اللہ کا بنا دیتی ہے۔


حضرت ناظم صاحب کی زندگی میں بھی کئی حادثے اور سانحے پیش آئے۔

کئی بار آنکھیں نم اور دل ہم و غم سے لبریز ہوا، مگر ہر بار اس فلسفۂ نعمت و مصیبت پر صبر و شکر کی توفیق نصیب ہوئی۔


ذیل میں چند نمایاں سانحات کا ذکر ہے:


تائی اماں کا انتقال


فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کی اہلیہ تھیں، سراؤنی ضلع میرٹھ کی رہنے والی تھیں۔

فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کا نکاح شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے پڑھایا تھا۔

زیتون نام تھا، بڑی نیک دل، خدمت شعار خاتون تھیں۔ حضرت مفتی صاحب کے مہمانوں کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتیں۔


چونکہ حضرت فقیہ الاسلام کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، اس لیے پہلے اپنی بھتیجی مسعودہ کو گود لے کر پرورش کی، پھر حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کو، اور بعد میں مسعودہ کے بیٹے سعیدالظفر سلمہ کی پرورش بھی انہی کے زیرِ سایہ ہوئی۔


تائی اماں اکثر حضرت مفتی مظفر حسینؒ سے فرماتیں کہ:

“میرا کوئی ذاتی مکان نہیں، اگر آپ کا انتقال ہوگیا تو میرا کیا ہوگا؟”

مفتی صاحب فرماتے: “اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا، ٹھیک کرے گا۔”


عجب اتفاق کہ پہلے تائی اماں کا انتقال ہوا، اور صرف دو ماہ بعد خود حضرت فقیہ الاسلام بھی اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔


تاریخِ وفات: 3 شعبان 1424ھ / 29 ستمبر 2003ء

نمازِ جنازہ حضرت مفتی مظفر حسینؒ نے پڑھائی۔


فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ


حضرت ناظم صاحب کی زندگی کے بڑے سانحات میں سے ایک۔

حضرت مفتی صاحب 28 رمضان 1424ھ / 23 نومبر 2003ء کو وفات پا گئے۔

رات بارہ بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی، لاکھوں افراد شریک ہوئے۔


حضرت مولانا اطہر حسینؒ (والدِ ماجد)


تفصیلی حالات الگ باب میں بیان ہوں گے۔

تاریخِ وفات: 26 جمادی الثانی 1428ھ / 12 جولائی 2007ء

یہ سانحہ حضرت ناظم صاحب کے لیے نہایت صبر آزما تھا۔


آپا حافظہ صابرہؒ


حضرت ناظم صاحب کی حقیقی پھوپھی۔

ان کا نکاح حضرت مولانا احمداللہ خان حمیدی بجنوری سے ہوا۔

مولانا پاکستان ہجرت کر گئے، مگر آپا صابرہ نے ہجرت سے انکار کیا۔

نہ طلاق لی، نہ مطالبہ کیا۔

انتہائی نیک، صابرہ، خدا ترس خاتون تھیں۔

تاریخِ وفات معلوم نہیں، مگر ان کی نیکی کی خوشبو آج تک باقی ہے۔


اہلیہ حضرت مولانا محمد سعیدیؒ (فاطمہؒ)


مولانا محمد معراج قاسمی (دیوبند خفین) کی صاحب زادی تھیں۔

زاہدہ، قانتہ، محبت کرنے والی، فیاض اور مہمان نواز خاتون تھیں۔

چھ بیٹے ہیں — بڑے بیٹے مفتی سعدان سعیدی اور سب سے چھوٹے محمد سفیان سعیدی ہیں۔


ایک دن سینے میں درد ہوا، اسپتال لے جایا گیا، جہاں آپ کا انتقال ہوگیا۔

إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔


ناظم صاحب ان کے انتقال سے ٹوٹ سے گئے، مگر اولاد کے لیے خود کو مضبوط رکھا۔

تاریخِ وفات: 3 ذی الحجہ 1431ھ / 10 نومبر 2010ء ہے

تدفین: قبرستان حاجی شاہ کمال


یوں حضرت ناظم صاحب کا انتقال اپنی اہلیہ کے انتقال کے پندرہ سال اور چار دن بعد ہوا۔


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے