یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 61)
(ناصرالدین مظاہری)
ابتدائی تعلیم آپ نے گھر کے دینی اور علمی ماحول میں حاصل کی، اور حفظِ قرآنِ کریم مدرسہ مظاہر علوم (وقف) کے مکتبِ خصوصی میں مکمل کیا۔ حفظ و ناظرہ کے استاذِ محترم حافظ سعید احمد صاحب تھے۔
حفظِ قرآن کے بعد عربی کی ابتدائی کتابیں مختلف اساتذہ سے پڑھیں، جن میں سب سے زیادہ حصہ اپنے والدِ بزرگوار حضرت مولانا اطہر حسینؒ سے حاصل کیا۔
آپ کے والدِ ماجدؒ نے مروّجہ نصابِ تعلیم سے ہٹ کر اپنی وضع کردہ تعلیمی ترتیب کے مطابق آپ کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ اس نصاب کا آغاز ندوۃ العلماء کے نصاب میں شامل بعض منتخب کتب سے ہوا۔ والدِ گرامیؒ نے مختصر مدت میں نہ صرف تعلیمی سفر تیزی سے مکمل کرایا بلکہ استعداد سازی اور فہم و ادراک کی تربیت پر بھی خاص توجہ فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کو عربی ادب سے ایک خاص مناسبت اور گہری دلچسپی حاصل ہوئی۔
۱۰ شوال ۱۴۰۶ھ (مطابق ۱۸ جون ۱۹۸۶ء) میں آپ نے مختصر المعانی، ہدایہ اوّلین، مقاماتِ حریری اور نورالانوار کا امتحان دے کر دوبارہ اسی جماعت میں داخل ہو کر مذکورہ بالا کتب بمع سبعہ معلّقہ پڑھیں۔
۱۴۰۸ھ میں جلالین شریف، ہدایہ ثالث، مشکوٰۃ شریف، مقدمۂ مشکوٰۃ اور شرحِ نخبۃ الفکر پڑھ کر سالانہ امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے نورالانوار حضرت مولانا محمد قاسم سے، سیفُ العلوم اور شرحِ جامی علامہ محمد یامین سہارنپوری سے پڑھیں۔
حضرت مولانا سید محمد وقار علی سے سراجی، ہدایہ رابع اور مختصر المعانی،
جبکہ جلالین شریف حضرت مولانا محمد یعقوب سہارنپوری سے اور ہدایہ ثانی و ثالث حضرت مولانا محمد اللہ بن حضرت مولانا محمد اسعداللہ سے۔ نیز
مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری سے پڑھیں۔
۱۴۰۹ھ میں آپ نے دورۂ حدیث شریف مکمل کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
بخاری شریف جلدِ اوّل کا ابتدائی حصہ (باب إذا رکع دون الصف تک) حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ سے، اور بقیہ حصہ حضرت مفتی مظفر حسینؒ سے پڑھا۔
بخاری شریف جلدِ ثانی حضرت علامہ رفیق احمد بھینسانویؒ سے،
مسلم شریف کا کچھ حصہ (کتاب الصلوٰۃ) حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ سے، اور بقیہ حصہ بشمول مسلم جلدِ ثانی، ترمذی مع شمائل، ابن ماجہ، موطّا امام مالکؒ، موطّا امام محمدؒ اور طحاوی شریف فقیہ العصر حضرت مفتی مظفر حسینؒ سے پڑھا۔
ابو داؤد شریف اور نسائی شریف کا کچھ حصہ حضرت مولانا سید محمد عاقلؒ سے اور دونوں کا بقیہ حصہ فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ سے پڑھا۔
سالانہ امتحان ۱۴۰۹ھ میں آپ نے پوری جماعت میں اوّل مقام حاصل کیا، اور مجموعی طور پر ۲۰۰ میں سے ۱۹۳ نمبرات حاصل کیے۔
مدرسہ کی جانب سے اہم و وقیع کتب کے ساتھ ساتھ نقد انعام سے بھی نوازے گئے۔
آپ کے دورۂ حدیث کے ممتاز رفقاءِ درس میں:
حضرت مولانا مفتی عبدالحسیب اعظمی مدظلہ(استاذ مظاہر علوم)
مولانا لئیق احمد اعظمی مدظلہ (استاذ بیت العلوم، سرائے میر، اعظم گڑھ)،
مولانا محمد عیسیٰ بجنوری مدظلہ (امام و خطیب جامع مسجد و مہتمم جامعہ اشرف العلوم، نجیب آباد)،
حضرت مولانا افتخار احمد مظاہری مدظلہ (استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور)،
اور مولانا خلیل احمد دیوا مدظلہ (استاذ فلاح دارین، ترکیسر، گجرات)
خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
مظاہر علوم سہارنپور سے فراغت کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں بھی داخلہ لیا، مگر کسی مصلحت کے تحت تعلیمی سلسلہ وقف دارالعلوم میں جاری رکھا اور وہیں سے ۱۴۱۰ھ میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل فرمائی۔
دارالعلوم وقف دیوبند میں آپ نے حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ، حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ، حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ، حضرت مولانا خورشید عالم قاسمیؒ، حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ اور حضرت مولانا محمد اسلام قاسمیؒ سے حدیث کی مختلف کتب پڑھیں۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ — مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند — براہِ راست حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔
(جاری ہے)

0 تبصرے