65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (63)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ


(دارالعلوم وقف دیوبند کے اساتذۂ کرام)

(قسط 63)

(ناصرالدین مظاہری)


13. حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ


بھارت کے وہ چند خاندان جن میں کئی پشتوں سے علمِ دین کی رونق اور چہل پہل قائم ہے، ان میں ایک خانوادہ دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا بھی ہے۔

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ اسی سلسلۃ الذہب کے پیکر اور اسی فکر کے جوہر و گوہر تھے۔


آپ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے صاحب زادے تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے، وہیں استاذ مقرر ہوئے، اور ایک عرصہ تک تدریس کی خدمت انجام دی۔ بعد ازاں وقف دارالعلوم دیوبند کی داغ بیل ڈالی۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ دونوں دارالعلوم حضرت اسد علی نانوتویؒ کی آل و اولاد کے مرہونِ منت ہیں۔


حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے آپ سے بخاری شریف پارہ 26 تا 30 پڑھا تھا۔

فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ نے خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمیؒ کو مظاہر علوم وقف سہارنپور کا رکنِ شوریٰ منتخب کیا اور تاحیات مکمل اعتماد فرمایا۔ حضرت مفتی مظفر حسینؒ فرمایا کرتے تھے:


> ’’تمام ارکان میں میری منشا کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ہی سمجھتے ہیں۔‘‘


اہتمام کے مشاغل اور ضعف و علالت کے باعث آپ کے اسباق بہت کم کر دیے گئے تھے۔

جب وقف دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث اور اطیب المساجد کے سنگِ بنیاد کی تاریخ طے ہوئی تو دارالحدیث کے لیے حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کو، اور اطیب المساجد کے لیے حضرت فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسینؒ کو منتخب کیا گیا۔


آپ نے 14 اپریل 2018ء (28 رجب 1439ھ) کو وفات پائی اور اپنے قبرستان مزارِ قاسمی میں سپردِ خاک ہوئے۔


14. حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ


آپ دارالعلوم وقف دیوبند کے قابلِ فخر استاذ تھے۔ اپنے وقت کے صرف شیخ الحدیث ہی نہیں بلکہ شیخ التفسیر بھی تھے۔

آپ کے تفسیری افادات اور دروس ذوق و شوق کے ساتھ نہ صرف مقبول تھے بلکہ آج بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے نہایت قریبی اور قابلِ اعتماد رفقا میں شمار ہوتا تھا۔


حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے بخاری شریف پارہ 6 تا 30 آپ سے پڑھا ہے۔


حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ کا انتقال 19 شعبان 1428ھ (23 اگست 2007ء) کو ہوا۔


15. حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ


محدثِ عصر حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ، حضرت علامہ مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ کے لائق و فائق صاحب زادے تھے۔

وفورِ علم اور استحضارِ علم میں آپ ممتاز تھے۔ یہ امتیاز مشکل تھا کہ آپ کو کس فن میں زیادہ درک و بصیرت حاصل تھی — جس موضوع پر بولتے، حق ادا کر دیتے۔


جب حضرت مولانا محمد سعیدیؒ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے ناظم منتخب ہوئے تو آپ نے دارالحدیث دارالعلوم وقف دیوبند میں فخر کے ساتھ فرمایا:


> ’’الحمدللہ! آج وقف دارالعلوم دیوبند کا ایک ہونہار فرزند مظاہر علوم وقف سہارنپور کا ناظم منتخب ہوا ہے۔‘‘


حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے آپ سے بخاری شریف پارہ 1 تا 6 پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔


حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ کا انتقال 18 ربیع الثانی 1429ھ (26 اپریل 2008ء) کو ہوا اور اپنے والد ماجد کے قریب آسودۂ خواب ہوئے۔


16. حضرت مولانا خورشید عالم قاسمیؒ


آپ دیوبند کے عثمانی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

تدریسِ حدیث میں عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ گزرا۔

آپ بھی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے شیدائی و فدائی تھے اور انہی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند سے وقف دارالعلوم تشریف لائے تھے۔


حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے آپ سے صحیح مسلم (جلدِ اول) پڑھی۔


حضرت مولانا خورشید عالم قاسمیؒ کا انتقال 7 فروری 2012ء (14 ربیع الاول 1433ھ) کو ہوا۔


17. حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ


حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

آپ کی شروحات ایسی مقبول و مشہور ہوئیں جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

حضرت ناظم صاحب فرمایا کرتے تھے:


> ’’مولانا کا سبق بہت سہل ہوتا ہے۔ طلبہ کو سمجھانے کا جو ملکہ ان میں تھا، وہ صرف درس تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کی تصنیفات اور شروحات میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔‘‘


حضرت ناظم صاحب نے حضرت مولانا سکروڈویؒ سے ترمذی شریف (جلدِ اول) پڑھی۔

آپ بھی حضرت قاری محمد طیبؒ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند سے وقف دارالعلوم آگئے تھے، اور ایک عرصہ تک تدریس فرماتے رہے۔

بعد میں کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت واپس دارالعلوم چلے گئے۔


حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ کا انتقال 13 مارچ 2019ء (6 رجب 1440ھ) کو ہوا۔


18. حضرت مولانا محمد اسلام قاسمیؒ


اساتذۂ دارالعلوم وقف دیوبند میں آپ ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔

لکھنے کا ذوق فراواں حاصل تھا، کاتب و خطاط بھی تھے، مقررِ شیرین بیان بھی، مدرسِ بے مثال، محدثِ باکمال، مفسرِ بے نظیر، مصنف و صحافی بھی۔

عربیت آپ کے لیے گویا مادری زبان تھی — اتنی سہولت اور روانی کہ رشک آئے۔


میرے خیال میں آپ دیوبند کے ان چند گنے چنے افراد میں سے تھے جنہیں عربیت پر قابلِ رشک درک و رسوخ حاصل تھا۔

حضرت ناظم صاحب سے بھی آپ کا مشفقانہ تعلق تھا اور دونوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔


حضرت ناظم صاحب نے آپ سے صحیح مسلم (جلدِ ثانی) پڑھی۔


حضرت مولانا محمد اسلام قاسمیؒ کا انتقال 26 ذی القعدہ 1444ھ (16 جون 2023ء) کو طویل علالت کے بعد ہوا۔

نمازِ جنازہ میں عوام و خواص کا ایک جمِ غفیر شریک تھا۔


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے