65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (64)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللّٰہ


(قسط 64)


(ناصرالدین مظاہری)


اساتذہ و مربیان کا عکسِ جمیل


یہ حقیقت مسلم ہے کہ تلامذہ اپنے اساتذہ کا عکس و نمونہ ہوتے ہیں۔

تلامذہ میں اساتذہ کی خوبیاں ودیعت ہوتی ہیں، اور استاد اپنے شاگرد میں اپنا فکری و اخلاقی نقش دیکھتا ہے۔ ہر استاذ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شاگرد اس سے بہتر اور زیادہ معیاری بنے۔

استاد علم کو جامِ حیات سمجھتا ہے، اور اسے شاگردوں کو پلادینا اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے۔ یہی وہ قوم ہے جو اپنے شاگردوں کی ترقی سے خوش ہوتی ہے — ان کا مقابلہ صرف اس بات میں ہوتا ہے کہ کون اپنے شاگردوں کو زیادہ بلند اور بارآور بناتا ہے۔


حضرت مولانا مفتی مظفرحسین اپنی تقریروں میں درسگاہوں میں حاضری کے ساتھ اساتذہ کی خدمت و صحبت کو حصولِ تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ بتاتے تھے۔

ان کا فرمان تھا کہ “علم بغیر تربیت کے ضائع ہے۔”


حضرت امام ابوحنیفہؒ کا ارشاد ہے:


> “العِلمُ يُؤخذُ مِنْ أَفواهِ الرِّجال، لا مِنْ صُحُفِ الأوراق.”

علم کاغذوں سے نہیں، اہلِ علم کے منہ سے لیا جاتا ہے۔

(جامع بيان العلم، ابن عبدالبر)


گویا علم صرف معلومات کا نام نہیں، بلکہ مزاج، فکر اور طرزِ عمل بھی استاد سے منتقل ہوتا ہے۔


حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں:


>  “کُنَّا نَأتِي رَبِيعَةَ الرَّأْيِ فَنَتَعَلَّمُ مِنْ هَدْيِهِ وَسَمْتِهِ قَبْلَ عِلْمِهِ.”

ہم ربیعۃ الرأی کے پاس جاتے تو ان کے علم سے پہلے ان کے طریق و سیرت سے سیکھتے تھے۔

(جامع بيان العلم)


حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد ہے:


> “شیخ کے ساتھ صحبت علم سے زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ صحبت اثرِ باطن ہے اور علم اثرِ ظاہر۔”

(مکتوبات امام ربانی، ج ۱، مکتوب ۲۶۶)


حضرت حکیم الامت تھانویؒ نے فرمایا:


> “تربیتِ تلامذہ کتابوں سے نہیں ہوتی، صحبت سے ہوتی ہے۔ جو استاد خود صاحبِ حال نہ ہو، وہ شاگرد میں حال پیدا نہیں کرسکتا۔”

(الاصلاحات، ملفوظاتِ حکیم الامت)


حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں:


> “شاگرد وہی کامیاب ہوتا ہے جس پر استاد کی صحبت کا اثر غالب ہو جائے۔”

(ملفوظات رشیدیہ)


مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کہتے ہیں:


> “میں نے حضرت شیخ الہندؒ سے صرف علم نہیں لیا، طرزِ فکر، استقلال اور دین کی حمیت بھی انہی سے سیکھی۔”

(نقشِ حیات، ج ۱)


حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:


>  “الشیخ کالمرآة، من جلس عنده رأى صورة نفسه.”

شیخ آئینہ کی مانند ہوتا ہے، شاگرد جب اس کے سامنے بیٹھتا ہے تو اپنی اصل کو اس میں دیکھتا ہے۔

(کشف المحجوب)


حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے الفاظ ہیں:


> “تلامذہ مشائخ کے فیض کا مظہر ہوتے ہیں، جس کا شیخ جتنا صاحبِ حال، اس کے تلامذہ اتنے ہی بلند حال ہوتے ہیں۔”

(القول الجمیل)


حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:


> “جو اپنے شیخ سے رنگ پکڑ لیتا ہے، وہ خود بھی رنگ دینے کے لائق بن جاتا ہے۔”

(فیوض امدادیہ)


سنو سنو!!


میرے روحانی مرشد شیخ سعدیؒ گلستاں میں فرماتے ہیں:


> “اگر پدر علم دهد و ادب نہ دهد، علم نتواند که از او ادب آورد.”

اگر باپ علم دے مگر ادب نہ دے، تو علم بھی ادب پیدا نہیں کر سکتا۔

(گلستانِ سعدی، بابِ تعلیم)


ان واضح ارشادات و اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ تلامذہ دراصل اپنے اساتذہ کے باطنی فیض، اخلاقی اثر اور فکری سانچے کے وارث ہوتے ہیں۔

کتابیں معلومات دیتی ہیں، مگر استاد روحانی رنگ دیتا ہے۔


اسی لیے اہلِ سلوک کہا کرتے ہیں:


> “من لا شیخ له، شیخه الشیطان.”

جس کا کوئی استاد نہیں، اس کا استاد شیطان ہے۔


حضرت امام قشیریؒ نے فرمایا:


> “الشیخ للمرید کالطبیب للمریض، إن ترک المریضُ الطبیبَ، قتله المرض.”

شیخ مرید کے لیے طبیب کی طرح ہے؛ اگر مریض طبیب کے بغیر رہے تو مرض اسے ہلاک کر دے گا۔

(الرسالۃ القشیریۃ)


بہرِ حال، حضرت مولانا محمد سعیدیؒ صرف نام و نسبت کے اعتبار سے “سعید” نہیں تھے، بلکہ حقیقت میں بھی “اسعد” واقع ہوئے تھے۔

ان کے اولین استاذ کا نام سعید تھا، خود سعیدی تھے؛ والدِ گرامی اطہر تھے، اور حضرت کے اندر طہارت بدرجۂ اتم موجود تھی۔

ان کے استاذِ محترم کا نام محمد قاسم بھی تھا، اور خود ناظم صاحب “إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰهُ يُعْطِي” کے مصداق تھے۔


ان کے اندر

علامہ محمد یامین سہارنپوری جیسا فنِ صرف و نحو پر عبور،

مولانا سید محمد وقار علی جیسا رسوخ،

مولانا محمد یعقوب سہارنپوری جیسی نکتہ‌آفرینی،

مولانا محمد اللہ بن مولانا اسعداللہ جیسی نفاست،

مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری جیسی عزیمت،

مولانا محمد یونس جونپوریؒ جیسا کمال،

مفتی مظفر حسینؒ جیسا جمال،

مولانا سید محمد عاقل سہارنپوریؒ جیسی دانائی،

علامہ رفیق احمد بھینسانویؒ جیسی جرات،

مولانا محمد سالم قاسمیؒ جیسی استقامت،

مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ جیسی عبقریت،

مولانا انظر شاہ کشمیریؒ جیسی بصیرت،

مولانا خورشید عالم قاسمیؒ جیسی فراست،

مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ جیسی حکمت،

اور مولانا محمد اسلام قاسمیؒ جیسے اوصاف ودیعت تھے۔


اسی لیے وقتاً فوقتاً ان کے گوہر و جوہر اہلِ بصیرت پر آشکار ہوتے رہتے تھے۔


ذرا دیکھیے!

حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کو کتنی عظیم ہستیوں نے اجازتِ بیعت و خلافت دی،

کتنی ستودہ شخصیتوں نے اجازتِ حدیث سے نوازا،

اور کتنے تلامذہ کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔


کیا یہ ساری محنتیں اور خدمتیں اس لائق نہیں کہ آنکھ بند کرکے کہا جائے:


> ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے