65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (65)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللّٰہ

(قسط 65)

(ناصرالدین مظاہری)


نصابِ تعلیم کے سلسلے میں آپ کا نظریہ منفرد تھا۔ آپ کی خواہش تھی کہ نصابِ تعلیم ایسا ہو کہ بچوں کا وقت کم سے کم صرف ہو، اور ہر فن کی بنیادی معلومات اس درجے تک حاصل ہو جائیں کہ طالبِ علم میں اگلی کتابوں کے حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔


آپ درسِ نظامی کے آٹھ دس سالہ دورانیے پر بھی سنجیدہ تھے۔ فرماتے تھے کہ یہ زمانہ بہت طویل ہے، کم از کم ایک دو سال گھٹایے جائیں۔ بعض کتابیں حذف کر کے ان کی جگہ بہتر اور معیاری کتابیں داخل کی جائیں۔


یہ بھی چاہتے تھے کہ بچوں میں احادیثِ شریف کے حفظ کا ایسا ذوق پیدا ہو جائے کہ وہ فراغت کے وقت تک کم از کم سولہ سو احادیث کے حافظ بن جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کے ذہن میں ایک منظم خاکہ اور ترتیب موجود تھی۔


آپ کی تجویز تھی کہ چالیس مختلف موضوعات متعین کیے جائیں، اور ہر موضوع پر چالیس چالیس احادیث منتخب کی جائیں۔ اس طرح سولہ سو (1600) احادیث کا مجموعہ تیار ہو جائے گا۔ اس کے لیے آپ کے پیشِ نظر "دین مبین فی اربعین" کے عنوان سے حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفیؒ کی کتاب اسوۂ رسول اکرمؐ میں حضرت سلمان فارسیؓ کی مشہور روایت کا ایک جزو بنیاد کے طور پر لینا تھا، اور پھر اسی طرز پر چالیس صحیح احادیث ہر موضوع پر جمع کرنی تھیں۔


یوں یہ مجموعہ تقریباً سولہ سو (1600) احادیث پر مشتمل ایک قیمتی ذخیرہ بن جاتا۔ آپ کی خواہش تھی کہ اس مجموعے کو درجہ فارسی سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک کے تمام درجات کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔


منصوبہ یہ تھا کہ پورے سال میں ہر طالبِ علم دو سو احادیث اس کتاب سے یاد کرے، اور انہیں مضمون کی حیثیت دے کر باقاعدہ امتحان لیا جائے، نمبرات دئیے جائیں، اور ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی و انعامات دیے جائیں۔


افتاء کے سال میں آپ نے دو سو مسائل کی تخریج کو ضروری قرار دیا تھا، مگر اس کے ساتھ ایک دوسری خواہش بھی تھی کہ افتاء کے ہر طالبِ علم کو کم از کم دو سو ایسی احادیث احکام بھی یاد کرائی جائیں جو احناف کے دلائل پر مشتمل ہوں — یعنی وہ احادیث جن پر حنفی دارالافتاؤں میں فتاویٰ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔


اسی طرح آپ قرآنِ کریم کی آیاتِ احکام جو تقریباً پانچ سو ہیں کو بھی ایک مستقل کتابی صورت میں مرتب کرانا چاہتے تھے۔ یہ آیات قرآنِ کریم میں جگہ جگہ موجود ہیں، جن میں بعض عبادات سے، بعض معاشرت و معاملات سے، بعض نکاح و طلاق سے، اور بعض اخلاقیات و حدود و تعزیرات وغیرہ سے متعلق ہیں۔ آپ چاہتے تھے کہ ان آیات کے اس مجموعے کا مطالعہ سبقاً سبقاً کسی نہ کسی فاضل مفتی کی زیرِ نگرانی کرایا جائے تاکہ فتویٰ دیتے وقت یہ آیات واحادیث مفتی کے پیش نظر رہیں۔


فتاویٰ نویسی کے بارے میں آپ کا اصرار تھا کہ فتوے قدیم عربی فقہی کتب سے تحریر کیے جائیں، کسی اردو کتاب سے نہیں۔ فتوے کی زبان اور تعبیرات ایسی ہوں کہ مستفتی سمجھ سکے، تاکہ وہ اس فتوے کو لے کر علماء کے پاس پڑھوانے کے لیے مارا مارا نہ پھرے۔


آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس دورِ انحطاط میں بھی لوگ فتوے لینے کے لیے دارالافتاء کا رخ کرتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے، ورنہ آج تو موبائل نے پورا نظام ہی متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔


آپ اس پہلو پر بھی بہت سنجیدہ تھے کہ جو فتاویٰ اکابرِ علم و عمل کے تحریر فرمودہ ہیں، ان کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جائے، اور ہر بزرگ کے فتاویٰ کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔اس کام کے لئے آپ نے شعبۂ ترتیب فتاوی قائم کرکے ایک مفتی اور دو تین معاون مفتیوں کا تقرر فرمایا۔


چنانچہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مفتی ضیاء احمد گنگوہیؒ، حضرت مفتی سعید احمد اجراڑویؒ، اور حضرت مفتی مظفر حسینؒ کے فتاویٰ کی کمپوزنگ کے مراحل مکمل ہو چکے تھے۔ بعض فتاویٰ مثلاً فتاویٰ مظاہر علوم المعروف بہ فتاویٰ سعیدیہ کی ایک جلد شائع بھی ہو چکی تھی۔


ان فتاویٰ کا کمپوز شدہ مواد بغرضِ اصلاح آپ بڑی پابندی اور بیداری کے ساتھ خود پڑھتے تھے۔ کئی جلدیں آپ نظرِ ثانی کے بعد اغلاط کی نشان دہی کے ساتھ واپس کر چکے تھے۔


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے