65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ قسط (66) مظفر نگر فسادات اور رفاہی کام

 

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللّٰہ


(قسط 66)


مظفر نگر فسادات اور رفاہی کام


(ناصرالدین مظاہری)


ستمبر 2013ء میں اتر پردیش کے مظفر نگر، شاملی، میرٹھ اور باغپت اچانک فرقہ وارانہ آگ میں جھلس گئے۔ وہ خطہ جو صدیوں سے ہندو مسلم اتحاد، خصوصاً جَـاٹ اور مسلمان کسانوں کی باہمی ہم آہنگی کی مثال تھا، اچانک نفرت، قتل و غارت، بداعتمادی اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا۔ یہ فساد نہ صرف ریاستی تاریخ بلکہ آزاد ہندوستان کی سیاسی و سماجی فضا پر گہرے نقوش چھوڑ گیا۔


فسادات کی چنگاری 27 اگست 2013ء کو مظفر نگر کے گاؤں کوال میں بھڑکی۔ ایک معمولی تنازعے نے اس وقت خونریز رخ اختیار کیا جب مسلم نوجوان شاہنواز اور جاٹ برادری کے دو نوجوان گورو اور سچن جھگڑے میں مارے گئے۔ یہ ایک محدود نوعیت کا واقعہ تھا جسے مقامی سطح پر سلجھایا جا سکتا تھا، مگر چند ہی دنوں میں اس واقعے کو افواہوں، سیاسی بیانات اور سوشل میڈیا پر جھوٹے ویڈیوز نے بھڑکا دیا۔ نتیجتاً دونوں برادریوں کے درمیان بداعتمادی اور انتقام کی فضا پیدا ہو گئی۔


واقعے کے بعد علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے باوجود انتظامیہ مؤثر اقدام نہ کرسکی۔ 7 ستمبر 2013ء کو ایک بڑی مہاپنچایت بعنوان “بہو کی عزت، بیٹی کی حفاظت” بلائی گئی، جس میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے۔ وہاں اشتعال انگیز تقاریر اور مذہبی نعروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شرپسند عناصر نے گاؤں گاؤں نفرت پھیلائی اور کچھ ہی گھنٹوں میں لامتناہی فسادات بھڑک اٹھے۔ پولیس اور حکومت کی تاخیر اور کمزور حکمتِ عملی نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔


یہ فسادات چند دنوں میں مظفر نگر، شاملی اور دیگر اضلاع میں پھیل گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 62 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ غیر سرکاری رپورٹیں اس سے کہیں زیادہ تعداد بتاتی ہیں۔ نوّے سے زائد زخمی ہوئے اور پچاس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔ مسلمانوں کے درجنوں گاؤں خالی ہوگئے، سینکڑوں مکانات، دوکانیں اور مساجد نذرِ آتش ہوئیں۔ کسانوں کے کھیت اجڑ گئے اور لاکھوں کی جائیداد تباہ ہوگئی۔


فسادات کے بعد متاثرہ علاقوں میں جو منظر سامنے آیا وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ ہزاروں مسلمان خاندان عارضی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو سخت سردی، بھوک، بیماری اور عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔ خواتین پر ظلم و زیادتی کے واقعات بھی ہوئے۔ بہت سے متاثرین کبھی واپس اپنے گاؤں نہ جا سکے۔ ان کی زمینیں اور مکانات جاٹ ہندؤں کے قبضے میں چلے گئے، اور مسلمان بے چارے ہمیشہ کے لیے مہاجرین بن گئے۔ حکومت تماشائی بنی رہی، فسادی عناصر ہوا دیتے رہے۔


ماہرین کے نزدیک مظفر نگر فسادات محض حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سیاسی کھیل تھا۔ چونکہ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات قریب تھے، اس لیے بعض سیاسی قوتوں نے فرقہ واریت کو ووٹ بینک میں بدلنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علاقائی سیاست کا مزاج ہی بدل گیا۔ جو علاقے کبھی کسان اتحاد کے لیے مشہور تھے، وہ مذہبی تقسیم کے گڑھ بن گئے، اور کسانوں کو بیوقوف بنانے والوں کا وجود نابود ہوگیا۔


رفاہی خدمت اور حضرت سعیدیؒ کی قیادت


اس تکلیف دہ موقع پر حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ کی اپیل پر مہمان خانے میں راحتی سامان جمع ہونا شروع ہوا۔ لوگوں نے قیمتی سامان، اشیائے خورد و نوش، ضروریاتِ زندگی کی چیزیں، دوائیں، کپڑے، برتن — سب کچھ بڑی فراخ دلی کے ساتھ دینا شروع کیا۔ نقد رقمیں بھی آئیں۔


شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ نے نقد رقم کے علاوہ بہت سے نفیس اور بیش قیمت کپڑے بھی بھیجوائے۔ ایک جوڑی سفید موزے اتنے شاندار تھے کہ ایک صاحب نے ان کے پانچ سو روپے دینے چاہے۔ میں نے ناظم صاحب سے پوچھا تو فرمایا کہ:


> “اس مال کو فروخت کرنا جائز نہیں، کیونکہ حضرت نے متاثرین کے لیے ہی عنایت فرمائے ہیں۔ ہاں اگر کسی متاثر کو دے کر اس سے خریدے جائیں تو جائز ہے۔”


خانگی ضروریات کی باریکی کے ساتھ فہرست بنائی گئی۔ حاجی محمد عاطر صدیقی، حاجی توصیف صدیقی، حاجی عبد الرحمن صدیقی بلکہ کہہ لیجیے کہ کلال برادری کے نونہالوں نے دن رات ایک کر دیا۔ کئی ٹرک سامان جمع اور خریدا گیا۔ ناظم صاحب نے اس سامان کی ترتیب، ترسیل، تنظیم اور تقسیم کی ذمہ داری مجھے سپرد فرمائی۔


کیرانہ، شاملی، گڑھی دولت، بی پور، منصورہ اور نہ جانے کہاں کہاں ہم لوگ ٹرک کے ذریعہ سامان پہنچاتے رہے۔ ویسے میں ایک بات بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ سہارنپور والے بڑے دل گردے والے ہیں۔ حاجی توصیف صاحب نے تو پچاس پچاس گز زمین متاثرین کو دینے کا ارادہ کیا ہوا تھا، مگر متاثرین سہارنپور کی طرف نہیں آئے — وہ مظفر نگر، شاملی، کیرانہ، تھانہ بھون تک ہی محدود رہے۔


تری پال تان کے بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے یہ لوگ کبھی ذاتی مکان کے مکین تھے۔ ان کے پاس کبھی دولت و ثروت کی ریل پیل تھی، کھیت و کھلیان تھے، مگر برا ہو ملک کے فتنہ پردازوں، حرام خوروں، نمک حراموں، سیاسی بازی گروں، ووٹ کے پجاریوں، نفرت کے سوداگروں اور دوسروں کی لاشوں پر حکومت کرنے والے درندوں کا — جنہوں نے ان لوگوں کو ایک ایک پائی کا محتاج بنا دیا۔


آج آسمان ان کی چھت اور زمین ان کا فرش بنا ہوا تھا۔ جب سامان انھیں دیا جا رہا تھا تو ان کے چہرے خوشی سے عاری اور مسرت سے خالی تھے، کیونکہ وہ کبھی اس امداد اور تعاون کے مستحق نہیں تھے۔ ان کو تو حالات نے بسترِ نرمش سے خاکسترِ گرمش پر لا کر پٹخ دیا تھا۔


> تلک الایام نداولها بین الناس

(یہ دن ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں — سورۂ آل عمران)


ہم سب کو غضبِ الٰہی سے بچنے کی ہمہ وقت دعا کرنی چاہیے۔


حاصلِ تجربہ و مشاہدہ


ان حالات کو باریکی سے دیکھنے اور جانچنے کے بعد میں نے جو سبق حاصل کیا، وہ درج ذیل ہیں۔ ان نتائج و عواقب سے آپ کو اختلافِ رائے کا مکمل اختیار ہے۔


الف: حقیقتِ حال کا انکشاف


فسادات کے دوران وہ چہرے بے نقاب ہو جاتے ہیں جو امن و دوستی کے لبادے میں نفرت اور تعصب چھپائے رکھتے ہیں۔


سوسائٹی کو پتا چلتا ہے کہ کون امن پسند ہے اور کون انتہا پسند۔

یہ انکشاف آئندہ سیاسی و سماجی فیصلوں میں بصیرت بخشتا ہے۔


ب: اتحادِ باہمی اور بیداری


جب عام مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے تو قوم کے اندر دینی، سماجی اور انسانی بیداری پیدا ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ جو پہلے غیر فعال تھے، وہ میدانِ خدمت، تعلیم، رفاہ اور حقوق کی جدوجہد میں آتے ہیں۔

اسی طرح ہندو برادری کے انصاف پسند طبقات بھی ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، اور یوں ایک نیا اتحادِ انسانیت جنم لیتا ہے۔


ج: سماجی اصلاح اور تنظیم


فسادات کے بعد قوم یہ سمجھتی ہے کہ غیر منظم قوم ہمیشہ کمزور رہتی ہے۔

چنانچہ ایسے سانحات کے بعد تعلیمی ادارے، رفاہی ٹرسٹ، قانونی و میڈیا تنظیمیں، اور انسانی حقوق کے پلیٹ فارم بنتے ہیں۔

یہ وہ “مثبت ردِ عمل” ہے جو اگر ہو جائے تو المیہ “موقعِ اصلاح” بن جاتا ہے۔


د: دینی رجحان اور توجہِ الی اللہ


مصیبت انسان کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

فسادات کے بعد بہت سے لوگ دین سے قریب ہو جاتے ہیں، جو لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس کی امت میں ہیں ، ان کا کلمہ کیا ہے وہ نماز و دعا کی طرف رجوع ہوتے ہیں ، اور باہمی تعلقات میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔


> وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔ (الاعراف)

“ہم نے انہیں خوش حالی اور بد حالی دونوں سے آزمایا تاکہ وہ رجوع کریں۔”


ھ: سیاسی و قانونی شعور


فسادات عوام کو یہ سکھاتے ہیں کہ قانونی شعور، ووٹ کی طاقت، اور میڈیا کی اہمیت کیا ہے۔

قوم جان لیتی ہے کہ اگر ہم اپنی سیاسی و شہری طاقت کو سمجھ دار طریقے سے استعمال نہ کریں تو کوئی ہماری بات نہیں سنے گا۔

یوں یہ سانحہ سیاسی شعور کا سبق بن جاتا ہے۔


و: تاریخ کا سبق


فسادات کی کہانیاں مستقبل کی نسلوں کے لیے انتباہ بنتی ہیں۔

یہ یاد دلاتی ہیں کہ تعصب اور نفرت کا انجام کیا ہوتا ہے۔

اگر ان تجربات سے قومیں سبق لیں تو وہ دوبارہ ان اندھیروں میں نہیں بھٹکتیں۔


بہرحال:

فسادات کے نقصانات بے شمار ہیں، لیکن ان کے ممکنہ “مثبت اثرات” اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب قوم ان واقعات سے سبق لے، خود کو منظم کرے، اور انسانیت و انصاف کے پیغام کو مضبوطی سے تھامے۔

اگر ایسا نہ ہو تو یہ تباہی محض تباہی ہی رہتی ہے۔


بات لمبی ہوگئی، مگر بہت سے حقائق اور مشاہدات نوکِ قلم پر آکر تاریخ بن گئے۔

میں نے حضرت ناظم صاحب کو جب تحریری رپورٹ سونپی کہ گیارہ مرتبہ چھوٹے بڑے ٹرک اور پِک اپ کے ذریعہ سامان پہنچا دیا گیا تو پھر خود ناظم صاحب ان جگہوں کا معائنہ کرنے کے لیے نکل پڑے اور دور افتادہ گاؤں گاؤں گھومے پھرے لوگوں سے ملے اور حالات سے آگہی و آگاہی حاصل کی۔

اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے