یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 67)
(ناصرالدین مظاہری)
اسی طرح ستمبر 2014 میں کشمیر میں زبردست سیلاب آیا تھا۔ یہ سیلاب کشمیر کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب قرار پایا۔ خاص طور پر دارالحکومت سری نگر شہر بری طرح متاثر ہوا۔ دریائے جہلم اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا، ہزاروں مکانات، سرکاری عمارتیں اور بازار ڈوب گئے، اور مواصلاتی و ذرائع نقل و حمل کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا۔
پھنسے ہوئے لوگوں کو حکومت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے مفت منتقل کیا۔ اس سیلاب نے کشمیریوں کی معیشت پر بہت بڑا اثر ڈالا۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ہزاروں گھرانے پائی پائی کے محتاج ہو گئے۔
حضرت ناظم صاحب نے اس موقع پر مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مظاہری کو بلوایا اور مشورہ فرمایا۔ طے پایا کہ ریلیف کا مؤثر نظم کیا جائے۔ چنانچہ اعلان جاری ہوا اور شہرِ سہارنپور والوں نے اپنی ہمیشہ کی سخاوت کا قابلِ رشک مظاہرہ کیا۔ ایک بڑا ٹرک بھر کر مظاہرعلوم وقف سہارنپور سے کشمیر کے لیے روانہ فرمایا گیا۔
دعوت اور حضرت ناظم صاحب
آپ کی زندگی کے کچھ واقعات بڑے دلچسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔ لگے ہاتھوں سناتا ہوں کہ لطف بھی آئے اور عبرت بھی حاصل ہو۔
حضرت ناظم صاحب دعوتوں کے بالکل شوقین نہ تھے۔
میں یہ بات طویل صحبت و رفاقت کے بعد وثوق سے لکھ رہا ہوں۔
ایک صاحب جو حضرت کے بہت قریب رہے — ہم طعام، ہم مجلس — انہوں نے اپنے ایک متعلق کی دعوت قبول کرلی اور یہ وعدہ بھی کرلیا کہ حضرت کو بھی لاؤں گا ۔ تاریخ طے ہوئی، مگر ڈرائیور دستیاب نہ تھا، تو انہوں نے حضرت ہی کے ایک مرید کامران قریشی کو گاڑی سمیت بلا لیا۔
رات کا وقت تھا۔ حضرت کا حال مردہ بدست زندہ والا تھا۔ وہ صاحب گاڑی میں بیٹھے خراٹے لینے لگے۔ گاڑی مظفرنگر پہنچ چکی تھی۔ حضرت نے کامران قریشی کو واپسی کا اشارہ کر دیا۔ گاڑی واپس مڑ کر سہارنپور کی طرف دوڑنے لگی۔
جب شہر کے مناظر نظر آنے لگے تو ان صاحب کی آنکھ کھلی۔ پہلے تو سمجھے کہ منزل آگئی، پھر حقیقت جانی تو ان کا حال دیدنی تھا: ایک چپ، ہزار چپ! اس طرح یہ سفر بے ظفر تمام ہوا۔
دعوت [تاریخ سے ایک دن پہلے!]
ایک اور صاحب — نہایت عقیدت مند — گنگوہ کی طرف سے تھے۔ انہوں نے حضرت کی دعوت کی۔ حضرت نے منظور فرمائی مگر تاریخ ذہن میں نہ رہی۔ ایک دن پہلے ہی ان کے گھر پہنچ گئے۔ داعی پریشان کہ دعوت تو کل ہے!
دعوت [حاضری، مگر کھانا نہیں]
ایک صاحب نے دعوت رکھی، لیکن دعوت والے دن کوئی اہم معاملہ درپیش ہوگیا۔ حضرت نے ایک دن پہلے ہی ان کے دولت کدہ پہنچ کر فرمایا:
"بھئی! میں تم پر بوجھ نہیں بنوں گا۔ بس حاضری لگانے آیا ہوں، کیونکہ کل میرا پروگرام کچھ اور ہے۔"
لڑکی والوں کی دعوت — حضرت کا اصول
آپ حیران ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ حضرت کسی لڑکی کے نکاح میں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اس موضوع پر کئی واقعات ہیں، ایک یہاں ذکر کرتا ہوں:
سالیری گاؤں میں مظاہرعلوم وقف کے سفیر حافظ محمد یحیی صاحب کی صاحب زادی کا نکاح تھا۔ بہت سے اساتذہ و ملازمین شریک تھے۔ میں بھی حضرت کے ساتھ تھا۔ حضرت نے نکاح پڑھایا اور فوراً چلنے لگے۔
مجھے شدید بھوک لگی تھی۔ عرض کیا:
“حضرت! میں کھانا کھا کر آ جاؤں گا۔ آپ تشریف لے جائیں، میں کسی اور گاڑی سے پہنچ جاؤں گا۔”
حضرت نے فرمایا:
"کوئی بات نہیں، کھانا کھالو۔ میں مسجد میں بیٹھا ہوں، فارغ ہو کر مسجد آجانا۔"
ایسا ہی ہوا۔
ہاں! اگر پہلے سے تعلق ہو اور دعوت تعلق کی بنیاد پر ہو تو وہاں کھا لیا کرتے تھے اور فرماتے:
"یہاں دعوت نہیں، تعلق پیشِ نظر ہے۔"
ایک فقہی وضاحت
لڑکی والوں پر کھانا کھلانا ضروری نہیں اور اگر کھلائیں تو ناجائز نہیں . دارالعلوم دیوبند اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں یہی فتویٰ ہے۔
(جاری ہے)

0 تبصرے