یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 68)
(ناصرالدین مظاہری)
حضرت ناظم صاحب کو مزاج شناسی کا جوہر بھی حاصل تھا۔ اندازِ تکلّم سے مخاطَب اور مخاطِب کے پایہ کو جان لیتے تھے۔ شکل و صورت سے وہ واردین و صادرین کے شانِ نزول کو پرکھ لیتے تھے۔ طلبہ کی مصنوعی شکلوں، درخواستوں کے مضمونوں اور حیلے بہانے کی حقیقتوں سے جلد آگہی ہوجاتی تھی۔
طب و حکمت کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، مگر کچھ تو اپنے نانا حکیم عبدالاوّل راسخ قاسمی اور کچھ اپنی والدہ ماجدہ کے نسخوں کو دیکھ دیکھ کر اچھی خاصی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ کتنے ہی لوگوں کو کسی مرض کی دوا بتائی اور مریض ماشاء اللہ شفایاب ہوگیا۔
دواؤں اور غذاؤں کی تاثیر کا بھی تھوڑا بہت علم رکھتے تھے، اصلی و نقلی پہچان سے بھی واقف تھے۔
مجھ سے فرمایا کہ:
“آپ کی طبع (مزاج) میں رطوبت ہے۔”
میں نے عرض کیا: “یہ مزاج کتنے ہوتے ہیں؟”
فرمایا: “چار! دموی، صفراوی، بلغمی اور سوداوی۔”
پھر نہایت سہل انداز میں سمجھاتے ہوئے فرمایا:
دموی مزاج
یہ ان لوگوں کا مزاج ہوتا ہے جن کے جسم میں خون کی کثرت ہو۔ ایسے افراد عام طور پر ہشاش بشاش، چہرے پر سرخی مائل، طبیعت میں گشادہ دلی اور سخاوت پائی جاتی ہے۔ جلد غصہ آتا ہے مگر جلد ٹھنڈا بھی ہوجاتے ہیں۔ تازہ اور گوشت والی غذائیں ان کے لیے زیادہ موزوں نہیں۔
صفراوی مزاج
صفرا کی زیادتی والے لوگ۔ چہرہ زردی مائل، طبیعت میں گرمی اور چڑچڑاپن، جلد فیصلے کرنے والے، جلد ناراض ہونے والے۔ گرم اور خشک چیزیں انہیں جلد متاثر کرتی ہیں۔ ٹھنڈی اور رطوبت والی غذائیں ان کے لیے مفید رہتی ہیں۔
بلغمی مزاج
ایسے افراد میں رطوبت غالب ہوتی ہے۔ طبیعت میں نرمی، سکون، کبھی کبھی بوجھل پن اور سستی بھی۔ چہرہ اور جسم سفید مائل۔ ٹھنڈی اور لسی دار غذائیں ان کے لیے بہتر نہیں ہوتیں۔ گرم اور خشک غذائیں فائدہ مند رہتی ہیں۔
سوداوی مزاج
سودا کی زیادتی والے لوگ۔ جسم دبلا پتلا، رنگت سیاہی مائل، طبیعت میں سنجیدگی، فکرمندی اور کبھی کبھی وہم اور حساسیت۔ ان کے لیے گرم اور لطیف غذائیں موزوں اور تسکین بخش ہوتی ہیں۔
طب کا مطالعہ آپ نے بہت کیا تھا۔ ایک دفعہ تو کیمیا بنانے کی سوجھی اور خوب سوجھی کہ آپ سے تھوڑی سی چاندی بن گئی، مگر سونا نہیں بن سکا۔ کہا کرتے تھے کہ کیمیا الگ چیز ہے، سیمیا الگ چیز ہے اور ایک چیز ہے ریمیا۔
میں نے پوچھا: کیمیا تو معلوم ہے، باقی کا مجھے پتہ نہیں۔ کہنے لگے:
کیمیا
مادّہ کی ماہیت اور تبدیلی کے علم کو کیمیا کہتے ہیں۔
جابر بن حیان کیمیا کا سب سے بڑا عالم تھا۔
سیمیا
علّت و اثر کے خفیہ نظام کو علمِ سیمیا کہتے ہیں۔
ریمیا
ریمیاء سے مراد ایسا فن جو تیر اندازی، نشانہ بازی اور اسلحہ کے استعمال سے متعلق ہے۔
کہتے تھے کہ تانبے کو ایک خاص تکنیک سے سونا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک کام کی طرف کئی بار اشارہ کیا کہ:
“ہم لوگ بعض جگہ پہنچتے ہیں اور وہاں پتہ چلتا ہے کہ یہاں فلاں بندہ کے پاس فلاں مرض کا خاص نسخہ ہے… تو ایسے نسخوں کو ڈائری میں لکھتے رہو اور اس کو کتابی شکل میں شائع کردو تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔”
مگر یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکا۔
جڑی بوٹیوں کے خواص کا بھی خاصا علم رکھتے تھے۔ مجھ سے سیاہ بھنگرہ منگوایا تھا جو میں جڑ مٹی سمیت گھر سے لے کر آیا تھا اور اپنے صاحب زادہ مفتی محمد سعدان سعیدی کو حکم دیا کہ اس پودے کو گملے میں لگادو۔ پتہ نہیں بھنگرہ کس کام میں آتا ہوگا۔
(جاری ہے)

0 تبصرے