سنو! سنو!!
اصل سے زیادہ ان کے اجزاء اہم ہیں
(ناصرالدین مظاہری)
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی شے بے کار نہیں بنائی۔ ہر چیز میں حکمت ہے، ہر ذرے میں فائدہ ہے۔ ہم اکثر صرف اصل کو دیکھتے ہیں، مگر کبھی غور کریں تو اصل کے ساتھ ساتھ اس کے پہلو اور اجزاء میں بھی بے شمار برکتیں اور خزانے چھپے ہوتے ہیں۔
ذرا مکئی کو لیجیے:
اس کے دانے ہماری غذا ہیں، مگر اس کے تنّے جانوروں کے چارے ہیں، اس کے پتے بھی چارے کا کام آتے ہیں، جڑیں جلانے کے کام آتی ہیں اور اس کے باریک بال گردوں اور پروسٹیٹ کے لیے شفا ہیں۔ یعنی اصل مکئی اپنی جگہ، مگر اس کے پہلو اصل سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔
اور پھر غور کیجیے تو مکئی کا ریٹ بمشکل تیس چالیس روپے کلو ہوگا مگر جب آپ کسی عطار کی دکان پر پہنچ کر مکئی کے بال مانگیں گے تو کئی سو روپے کلو ملیں گے حالانکہ ہم اس کو غیر ضروری ، غیر اہم اور فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔
پھر خربوزے پر نگاہ ڈالیے:
اس کا میٹھا گودا پیاس بجھاتا ہے اور جسم کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ مگر اس کے بیج بھی طاقت کا خزانہ ہیں، اور اس کی چھال گردوں کے امراض کے لیے دوا ہے۔ جو چیز چھال سمجھ کر پھینک دی جاتی ہے، وہ بعض وقت اصل سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتی ہے۔
یہاں بھی آپ کو خربوزے کے بیج کئی سو روپے کلو مل سکیں گے حتی کہ عطار حضرات اس کی چھال بیچ کر ہزاروں کماتے ہیں۔
اب کھجور کو دیکھیے:
پھل توانائی سے بھرا ہوا ہے، مگر بیج بھی استعمال ہوتے ہیں، پتّے چٹائیوں اور ٹوکریوں میں ڈھل جاتے ہیں، تنہ چھتوں اور ایندھن میں آتا ہے اور ریشے رسّی اور صوفوں میں بدل جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کھجور کا ایک ایک ذرہ کسی نہ کسی فائدے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
اب ذرا انار پر غور کیجیے:
ہم اس کے دانے شوق سے کھاتے ہیں، لیکن اس کا چھلکا ہاضمے اور دست روکنے کی بہترین دوا ہے، اس کے پھول و پتے بھی طب میں استعمال ہوتے ہیں۔ گویا انار کا حسن صرف دانے میں نہیں، چھلکے اور پتوں میں بھی حکمت ہے۔
اور ناریل کو نہ بھولیے:
اس کا پانی ٹھنڈک اور توانائی بخشتا ہے، گودا غذا ہے، چھلکا ایندھن اور برتن بنانے کے کام آتا ہے، اور ریشہ رسّیوں اور چٹائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ناریل بھی صرف ایک پھل نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ فائدہ ہے۔
اصل میں یہی راز ہے کہ کائنات کی کوئی چیز بیکار نہیں۔ کبھی اصل قیمتی لگتی ہے اور کبھی اس کی متعلقہ اضافی چیزیں اصل سے بڑھ کر فائدہ دیتی ہیں۔ یہ سب ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتے ہیں جسے قرآن نے یوں بیان کیا:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران)
اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں فرمایا، تو پاک ہے! پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
(دس ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے