65a854e0fbfe1600199c5c82

مہمانوں کو دروازے تک چھوڑنے جانا

 


سنو سنو !!
مہمانوں کو دروازے تک چھوڑنے جانا


(ناصرالدین مظاہری)


فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے پاس کچھ مہمان آئے۔ رخصت کے وقت حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ:

"مہمانوں کے ساتھ باہر تک چلے جاؤ۔"


میں دفتر کے گیٹ تک جا کر رخصت کرکے واپس آگیا تو مفتی صاحب نے پوچھا:

"کہاں تک چھوڑنے گئے تھے؟"


عرض کیا: "گیٹ تک۔"

فرمایا: "گاڑی تک چھوڑ کر آؤ، اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ جائیں تب واپس آنا۔"


اس واقعہ سے ہمیں مشایعت جیسی سنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مہمان کے آنے پر آگے بڑھ کر ملاقات کرنا استقبال کہلاتا ہے اور واپسی پر باہر تک چھوڑنے جانا مشایعت کہلاتا ہے۔ دیہاتوں میں تو یہ سنت کسی درجہ میں باقی ہے، لیکن شہروں میں تقریباً مفقود ہو چکی ہے۔


استقبال اور مشایعت دونوں سنت ہیں


مہمان کا استقبال اور ضیافت جتنی اہم ہے، اتنی ہی اہمیت اس کے رخصت کرنے کی ہے۔ لیکن آج کل ہم نے یہ دیکھا کہ جب مہمان جانے لگتا ہے تو صرف ایک لفظ "اللہ حافظ" کہہ کر دروازہ بند کردیا جاتا ہے۔


حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول یہ تھا کہ مہمان کے ساتھ کچھ دور تک چل کر جاتے۔ یہ عمل محض سنت ہی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت کا عظیم درس بھی ہے۔


ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


"إن من السنة أن يخرج الرجل مع ضيفه إلى باب الدار"

(یہ بھی سنت ہے کہ آدمی اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک نکلے)۔


مشایعت کے فوائد


1. عزت و احترام

مہمان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میزبان نے صرف کھانے یا بٹھانے میں ہی نہیں بلکہ رخصت کے وقت بھی اس کی عزت کا خیال رکھا۔


2. دلوں کی قربت

چند قدم ساتھ چلنے سے دلوں میں اپنائیت بڑھتی ہے۔ رخصت کے وقت کی یہ محبت اگلی ملاقات کو مزید خوشگوار بناتی ہے۔


3. سنت کی یاد دہانی

یہ عمل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کرتا ہے اور گھر کے بچوں پر عملی اثر چھوڑتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی محبت سکھائی۔


4. دعاؤں کا موقع

رخصت کے وقت دعا دینا سنت ہے۔ مہمان کے لیے سلامتی اور برکت کی دعا دینا دلوں کو منور کرتا ہے۔


5. عجز و انکسار کا اظہار

مہمان کو دروازے تک چھوڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنی بڑائی میں نہیں بیٹھے رہے بلکہ جھک کر عزت دی۔


6. تعلق کی مضبوطی

آج رشتوں میں ٹھنڈک کی شکایت اسی لیے ہے کہ چھوٹے چھوٹے اخلاقی اعمال کو ہم نے چھوڑ دیا ہے۔


7. دل کی وسعت

مہمان کو محبت سے رخصت کرنا دل کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا حسنِ اخلاق ہے جو دنیا کی ہر تہذیب میں پسندیدہ ہے۔


بعض اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ اگر مہمان سواری پر سوار ہوتا تو اس کی رکاب پکڑتے۔


ہمارے گاؤں اور شہروں میں اب یہ حال ہے کہ مہمان کو گیٹ تک چھوڑنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ بعض لوگ تو مہمان کے نکلتے ہی فوراً اندر چلے جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف خلافِ سنت ہے بلکہ مہمان کے دل کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔


شیخِ طریقت حضرت مولانا محمد قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ کا واقعہ یاد آتا ہے۔ حضرت مفتی مظفر حسین کے نواسے سعیدالظفر میاں سلمہ آلہ آباد گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر ٹرین سے ان کا ٹکٹ تھا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ حضرت باوجود پیرانہ سالی اور معذوری کے، خود کار سے ریلوے اسٹیشن تک چھوڑنے تشریف لے گئے۔ یہ تھا سنت و اخلاق کا عملی نمونہ۔


اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:


هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ

(کیا آپ کے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کا قصہ آیا؟)


یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان نوازی اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک اللہ کے مقرب بندوں کی شان ہے۔ استقبال سے لے کر مشایعت تک ہر پہلو کو قرآن نے عزت و کرامت کے طور پر بیان کیا ہے۔


اگلی بار جب ہمارے گھر کوئی مہمان آئے اور وہ جانے لگے تو ہم سوچیں:

کیا ہم نے صرف "اللہ حافظ" پر اکتفا کیا یا دروازے اور گاڑی تک ساتھ گئے؟


یاد رکھئے! یہ چھوٹا سا عمل محض مہمان نوازی نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے، سنت کو زندہ کرنے اور تعلقات کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔


ہم اپنے گھروں میں مشایعت کی سنت کو زندہ کریں اور اپنی نسلوں کو بھی یہ عمل سکھائیں۔ یہی حسنِ اخلاق ہے اور یہی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو ہے۔


(نو ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

------------

مہمانی اور میزبانی سے متعلق مزید مضامین پڑھنے کے لیے LINK پر کلک کیجیے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے