سنو سنو!!
ڈکار اور اس کے آداب
(ناصرالدین مظاہری)
ڈکار آنا ایک فطری عمل ہے۔ کھانے کے بعد جب معدہ ضرورت سے زیادہ بھر جائے یا غذا ہضم ہونے میں وقت لے تو ڈکار کے ذریعے اندر کی بھاپ اور ہوا باہر نکلتی ہے۔ اس میں اصل قباحت نہیں، اصل قباحت یہ ہے کہ آدمی اس ڈکار کو لاپروائی اور بدتہذیبی کے ساتھ دوسروں کے سامنے چھوڑ دے، یا پھر اتنا کھائے کہ ڈکار اس کی شناخت بن جائے۔
مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ایک مسجد میں ایک صاحب میرے برابر میں تھے ڈکار پر ڈکار لیتے رہے اور میرے چین و سکون کو غارت اور اکارت کرتے رہے۔ میرا تو مشورہ ہے کہ ایسے صف میں لوگ بالکل کنارے کھڑے ہوں تاکہ بیک وقت کئی لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہ بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک صحابی نے ڈکار لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"کفَّ عنا جُشاءَک، فإنّ أکثرَهم شبعاً في الدنيا أطولُهم جوعاً يوم القیامة"
یعنی "اپنی ڈکار کو ہم سے روکو، کیونکہ دنیا میں جو زیادہ کھاتا ہے وہ قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا ہوگا" (ترمذی)۔
یہ تنبیہ صرف ڈکار پر نہیں بلکہ بے جا کھانے پر ہے۔ ڈکار تو علامت ہے، اصل نشانہ شکم پروری ہے۔ جب پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر جائے، دل غافل ہو جائے، اور ذکر و فکر کی جگہ پیٹ کا بوجھ لے لے، تب ڈکاریں شور مچاتی ہیں اور انسان کو دوسروں کے لئے باعثِ اذیت بنا دیتی ہیں۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی یہی سبق دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سن کر انہوں نے زندگی بھر پیٹ بھر کر کھانا چھوڑ دیا۔ دن میں کھا لیتے تو رات میں نہیں کھاتے، اور رات میں کھاتے تو دن میں نہیں کھاتے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
"من آذى غيره بصوت أو رائحة أو غيرها كره له ذلك، وإن تعمد الإيذاء أثم."
(الأذكار)
"جو شخص اپنی آواز، یا بدبو، یا کسی اور چیز کے ذریعے دوسرے کو اذیت پہنچائے، اس کے لیے یہ عمل مکروہ (ناپسندیدہ) ہے۔ اور اگر وہ جان بوجھ کر اذیت پہنچائے تو گناہگار ہوگا۔"
اگر ڈکار، کھانسی، یا کوئی بھی آواز دوسروں کو تکلیف دے، تو بہتر ہے کہ انسان خود کو قابو میں رکھے۔
یہ اصول صرف ڈکار ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر ایسی حرکت پر لاگو ہوتا ہے جو دوسروں کے آرام یا احترام میں خلل ڈالے۔
سوچئے! یہ وہی صحابہ ہیں جو حکم سنتے ہی زندگی بدل لیتے تھے، اور ہم ہیں کہ نصیحت کے بعد بھی اپنے کھانے کے دسترخوان کو کم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
ڈکار کو زبان کا فخر نہ بنائیں، بلکہ ضبط اور تہذیب کا حصار دیں۔
ڈکار اس وقت تک بری نہیں جب تک کہ وہ دوسروں کے لئے تکلیف دہ نہ ہو۔
لیکن اصل بری چیز "پیٹ کا غلام" بن جانا ہے۔
اسلام نے ہمیں کم کھانے، آدابِ مجلس اور دوسروں کا لحاظ کرنے کا درس دیا ہے۔ اس لئے ڈکار اگر آئے تو آداب کے ساتھ، دھیما پن اختیار کریں، اور سب سے بڑھ کر کھانے میں میانہ روی کو اپنا شعار بنائیں۔
(چودہ ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے