65a854e0fbfe1600199c5c82

جنّات کی چوری

 

سنو سنو !!
جنّات کی چوری


(ناصرالدین مظاہری)


میرے حقیقی بھائی ضیاء الدین کئی بار مجھ سے شکایت کرچکے تھے کہ ان کے پیسے چوری ہوجاتے ہیں۔

میں اکثر وہم اور غفلت سمجھ کر مسکرا کر بات ٹال دیتا لیکن کل جب مولانا محمد شوقین قاسمی امام وخطیب انار والی مسجد قدیم مصطفیٰ آباد دہلی

 نے واٹس ایپ پر باقاعدہ یہی مسئلہ پوچھا تو سوچا — نہیں، اب اس پر کچھ لکھنا ضروری ہے۔


میں نے تحقیق شروع کی تو حیرت ہوئی کہ جنّات کی چوری جیسے واقعات تو دورِ صحابہ و تابعین میں بھی پیش آچکے ہیں۔

چلیے، تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔


 حضرت ابوہریرہؓ اور شیطان کی "صدقے کی چوری"


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقے کے غلے کی نگرانی پر مقرر فرمایا۔

ایک رات ایک شخص آیا اور غلہ بھرنے لگا۔

میں نے پکڑ لیا اور کہا: "تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلوں گا!"

اس نے کہا: "میں محتاج ہوں، بچوں والا ہوں، بہت ضرورت ہے"

تو میں نے چھوڑ دیا۔


صبح میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


"وہ جھوٹا ہے، پھر آئے گا۔"


اگلی رات آیا، پھر پکڑا، پھر چھوڑا۔

تیسری رات پھر آیا، میں نے کہا: "اب نہیں چھوڑوں گا!"

اس نے کہا:


 "میں تجھے ایک بات سکھاتا ہوں — جب تو سونے لگے تو آیت الکرسی پڑھ لیا کر، اللہ تجھے صبح تک محفوظ رکھے گا۔"


جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


 "یہ تین راتوں سے تجھ سے جھوٹ بولتا رہا، مگر آج سچ کہا — وہ شیطان تھا!" (بخاری)


حضرت ابویعلیٰؒ کے گھر کا "غائب ہوتا غلہ"


حضرت ابویعلیٰ الحنبلیؒ کے گھر کے ایک کونے سے مسلسل غلہ کم ہوتا رہتا۔

نگرانی کی گئی، مگر کوئی انسانی سبب نہ ملا۔

ایک رات تہجد کے وقت انہوں نے دیکھا کہ غلے کے ڈھیر پر ایک سایہ سا حرکت کر رہا ہے۔

انہوں نے قرآن کی تلاوت شروع کی، تو وہ سایہ غائب ہوگیا —

اور پھر کبھی غلہ کم نہ ہوا۔


انہوں نے فرمایا:


 "میں نے جان لیا کہ یہ شیطانی تصرف تھا، اور قرآن کی تلاوت سے رکا۔"

(ابن ابی الدنیا، مکائد الشیطان)


سونا غائب ہوگیا


حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ان کے ایک شاگرد نے شکایت کی کہ اس کے گھر میں رات کو سونا غائب ہوجاتا ہے،

حالانکہ دروازے بند ہوتے ہیں۔

امام احمدؒ نے فرمایا:


 "جب سونا رکھو تو آیت الکرسی اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھ لیا کرو۔"


چند دن بعد وہ شاگرد خوشی سے آیا اور بولا:

"اب کچھ بھی نہیں چوری ہوتا۔ معلوم ہوا کہ جنّات کی شرارت تھی۔"

(تاریخ بغداد)


چراغ بجھانے والا شیطان!


حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں:


"ایک مرتبہ میرا چراغ بار بار بجھ جاتا تھا۔ میں نے سمجھا کہ ہوا ہے،

مگر کمرے میں ہوا کا راستہ نہ تھا۔

میں نے بسم اللہ پڑھی، چراغ جلتا رہا۔

تب سمجھا کہ یہ شیطان کی شرارت تھی،

جو روشنی کو ماند کرنا چاہتا تھا تاکہ میں ذکرِ الٰہی چھوڑ دوں۔"

(ابو نعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء)


مدینہ میں "حِرز البقرہ"


مدینہ منورہ میں امام مالکؒ کے ایک شاگرد کی کھیتی بار بار غائب ہوجاتی تھی۔

امام مالکؒ نے فرمایا:


 "کھیت میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کرو، اور ہر دروازے پر بسم اللہ لکھ دو۔"


چند دنوں میں معاملہ ختم ہوگیا۔

اہلِ مدینہ نے اسے کہا:

"حِرز البقرہ" — یعنی جنّات سے حفاظت کا قرآنی طریقہ۔

(قاضی عیاض، ترتیب المدارک)


 "اعقلہا و توکل"


قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ جنّات کا انسانوں کے معاملات میں تصرف ممکن ہے،

لیکن ان کے مقابلے میں سب سے مؤثر ہتھیار ایمان، تلاوت اور ذکرِ الٰہی ہے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


 “اعقلها وتوكل” —

یعنی پہلے اپنے اونٹ کو مضبوط رسی سے باندھ دو، پھر توکل کرو۔


اس کا ایک روحانی مفہوم یہ بھی ہے کہ انسانی چوروں سے بچنے کے لیے ظاہری تدابیر اختیار کی جائیں،

اور جنّات و شیاطین سے بچنے کے لیے روحانی تدابیر — یعنی قرآن، اذکار اور مسنون دعائیں — لازمی معمول بنائی جائیں۔


یہی ایمان کی حفاظت بھی ہے، اور مال و جان کی بھی۔


(پانچ جمادی الاول چودہ سو سینتالیس)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے