سنو سنو !!
مہزلۃ / سنجیدگی کا جنازہ
(ناصرالدین مظاہری)
دنیا کے ہر دور میں کچھ لوگ سنجیدہ باتوں کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ کبھی مذہب مذاق بنتا ہے، کبھی علم و ادب کا وقار ہنسی ٹھٹھے میں گم ہو جاتا ہے، اور کبھی انسانی قدریں خود تماشہ بن جاتی ہیں۔
یہی رویہ جب کسی قوم کی عادت بن جائے تو سمجھ لیجیے کہ وہ قوم زوال کے کنارے پر کھڑی ہے۔
اس کیفیت کو عربی میں "مہزلہ" کہا جاتا ہے — یعنی وہ حالت جب سنجیدگی کا لباس اتار کر ہر چیز کو تماشا بنا دیا جائے۔
مہزلہ کیا ہے؟
مہزلہ کا مطلب صرف ہنسی یا مزاح نہیں بلکہ کسی سنجیدہ، محترم یا فکری چیز کو مذاق میں تبدیل کر دینا ہے۔ یہ تمسخر اور ٹھٹھا کا وہ مرحلہ ہے جہاں علم، اخلاق، مذہب اور سچائی سب طنز کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
قرآن نے اس طرزِ عمل کی سخت مذمت کی ہے:
“وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ” (النساء)
یعنی جب تم دیکھو کہ اللہ کی آیات کا انکار اور ان کا تمسخر کیا جا رہا ہے، تو ان کے پاس مت بیٹھو۔
یہ آیت دراصل مہزلہ پسندی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ جو قوم اپنی مقدسات، اخلاقیات اور علمی بنیادوں کو مذاق بنالے، وہ نہ دنیا میں عزت پا سکتی ہے نہ آخرت میں اطمینان حاصل کرسکے گی۔
مہزلہ پسندی کا دور:
آج کا دور سوشل میڈیا، اسٹیج شوز اور طنزیہ تفریح اور کامیڈی کا ہے۔
ہر سنجیدہ چیز کو مضحکہ بلکہ مضحوکہ بنا دیا گیا ہے ، دین پر لطیفے، علما پر طنز، والدین پر مذاق، اساتذہ پر تبصرے، رشتہ داروں پر تیر و تبر یہ سب مہزلہ کے مظاہر ہیں۔
ہنسی وقتی سکون دیتی ہے مگر مہزلہ انسان کی روحِ وقار کو مار دیتا ہے۔
جب معاشرے کے اہلِ علم، اہلِ قلم، اور اہلِ سیاست خود سنجیدگی کے بجائے مہزلہ کے علمبردار بن جائیں،تو نوجوان نسل کے ذہنوں میں ادب، احترام اور سچائی کے معنی ہی یا تو مٹ جاتے ہیں یا سمٹ جاتے ہیں۔ یوں سنجیدگی کی لاش پر تماشہ گاہ سج جاتی ہے۔
مہزلہ کے نتائج
مہزلہ بظاہر ہنسی پیدا کرتا ہے مگر اندر سے معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے، بلکہ یہ مہزلہ الگ الگ جگہوں اور متفرق موقعوں پر نقصان رساں ہوتا ہے مثلا:
فکری سطح پر انسان سوچنے کے قابل نہیں رہتا، ہر بات تفریح بن جاتی ہے۔
اخلاقی سطح پر بڑوں کا ادب اور مقدس چیزوں کی حرمت ختم ہو جاتی ہے۔
روحانی سطح پر دلوں میں خشیت اور احترام کی جگہ بے حسی آجاتی ہے۔
یہی وہ زہر ہے جو قوموں کو تماشائی اور خود قوام کو تماشہ گاہ بنا دیتا ہے۔
تماشائی قوم کبھی تاریخ نہیں بناتی، بلکہ تاریخ کے حاشیے پر لکھی جاتی ہے۔
سنجیدگی کی واپسی:
سنجیدگی کا مطلب خشک مزاجی نہیں، بلکہ ادب، وقار اور ذمہ داری کا احساس ہے۔ ہمیں اپنی گفتگو، تحریر، مجلس اور میڈیا میں یہ احساس واپس لانا ہوگا کہ ہر بات ہنسنے کے لیے نہیں ہوتی۔
کچھ باتیں سمجھنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
مہزلہ دراصل دل کی مردنی اور عقل کی بے ادبی و سرد مہری کا نام ہے۔
جب معاشرہ ہر چیز کو مزاح کا لقمہ بنا دے تو اس کی سنجیدگی مر جاتی ہے۔ متانت دور و کافور ہوجاتی ہے ۔
زندہ قومیں ہنستی ضرور ہیں، مگر اپنی اقدار پر نہیں ، بے محل و بے موقع نہیں۔ اور ہاں ہزل گوئی ، یاوہ گوئی، مضحکہ یہ چیزیں ہمارے طاقت ور دل کی قوتوں کو کمزور اور مردہ بنادیتی ہیں۔
(چھ جمادی الاول چودہ سو سینتالیس)

0 تبصرے