65a854e0fbfe1600199c5c82

تولیے، رومال اور پلاسٹک کی ٹوپیاں

 سنو! سنو!!


تولیے، رومال اور پلاسٹک کی ٹوپیاں


(ناصرالدین مظاہری)


 نیکی کا جذبہ:


خیر کا جذبہ اپنی جگہ بڑی چیز ہے، مگر بعض اوقات یہی خیر اگر عقل کے بغیر ہو تو خیر سے زیادہ خطرہ بن جاتی ہے۔

مساجد کے وضو خانوں میں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کسی نے نیکی کے شوق میں ایک رومال یا تولیہ لٹکا دیا تاکہ لوگ ہاتھ یا چہرہ پونچھ لیں۔

نیت تو بہت پیاری ہے، مگر عمل بہت بھاری!


جراثیم کا جنگل؟


ذرا تصور کیجیے، دن میں درجنوں لوگ وضو کرتے ہیں۔

کسی کے ہاتھ میں تیل، کسی کے منہ پر پسینہ، کسی کے کپڑوں پر گرد، کسی کی داڑھی میں پانی کے ساتھ خوراک کے ذرات…

بعض تو ناک، کان، دانت اور آنکھوں کا میل تک صاف کرتے دیکھے گئے ہیں۔

اور یہ سب کچھ جا کر جمع ہوتا ہے — اسی ایک تولیے پر!


وہ تولیہ دنوں اور ہفتوں تک وہیں لٹکا رہتا ہے۔

دیکھنے میں نیکی کا پھول لگتا ہے، مگر حقیقت میں جراثیم کا جنگل ہوتا ہے۔

اگر اسے کبھی لیبارٹری میں بھیج دیا جائے تو رپورٹ پڑھ کر نیکی کرنے والا بھی توبہ کر لے!

بیکٹیریا، وائرس، تعفن، بدبو — اور پتہ نہیں کیا کیا اُس میں بسیرا کیے رہتے ہیں۔


پھر اگلا نمازی آتا ہے، وضو کرتا ہے، منہ دھوتا ہے، اور انہی "نیکی والے" جراثیموں کو دوبارہ چہرے پر مسح کر لیتا ہے۔

یوں ایک تولیہ پوری مسجد ہی نہیں بلکہ گھروں تک بیماری پھیلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

یہ تولیہ تولیہ نہیں، بیماریوں کی دکان ہے۔

یہ رومال رومال نہیں، صحت کا دشمن ہے۔


 پلاسٹک کی ٹوپیاں: سہولت یا بد ذوقی؟


یہی حال اُن پلاسٹک کی ٹوپیوں کا ہے جو کچھ لوگ بڑے جذبے سے رکھ دیتے ہیں تاکہ "سب کو سہولت ہو"۔

لیکن حضور! پلاسٹک نہ نماز کا لباس ہے، نہ مسجد کا ادب۔

یہ ٹوپیاں نہ صاف رہتی ہیں، نہ مہذب لگتی ہیں۔


پھر جب پلاسٹک کا کپڑا پسینے سے تر ہوتا ہے تو بدبو اور تعفن کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

یہ نیکی نہیں، بد ذوقی ہے — اور ادبِ نماز کے خلاف بھی۔


 فقہی رہنمائی:


دارالافتاء بَنوریہ اور دارالافتاء دیوبند سمیت متعدد مفتیانِ کرام نے فرمایا ہے کہ مسجد میں رکھی پلاسٹک کی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا اگرچہ درست ہے، مگر کراہتِ تنزیہی سے خالی نہیں۔

اس لیے بہتر ہے کہ نمازی صاف اور مناسب لباس میں نماز ادا کریں، اور پلاسٹک جیسی غیر معزز اشیاء سے اجتناب کریں۔


عبادت گاہ صفائی، سلیقہ، اور سادگی کی جگہ ہے۔

یہاں نیکی کا مطلب یہ نہیں کہ جو چیز گھر میں بیکار ہو، وہ مسجد میں ٹانک دی جائے۔

صفائی نصف ایمان ہے، اور صفائی کا تقاضا یہی ہے کہ تولیے یا رومال صرف ذاتی استعمال کے ہوں۔

اگر کسی کو سہولت پہنچانی ہو تو صاف، دھلے ہوئے، الگ الگ ٹشو یا نیپکن رکھے جائیں۔


 نیت اچھی، مگر طریقہ بھی درست!


نیت اچھی ہو، مگر طریقہ بھی صحیح ہو —

ورنہ کبھی کبھی نیکی کا تولیہ بھی بیماری کا بستر بن جاتا ہے۔


چلتے چلتے ایک اور نکتہ…

کبھی کبھی مسجد میں رکھے قرآنِ مجید کے جزدان بھی دھلوایا کریں،

کیونکہ اچھا نہیں لگتا جب آپ تلاوت کے وقت جزدان کی گرد و غبار سے اپنے کرتے اور دامن کو بچاتے نظر آتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے