65a854e0fbfe1600199c5c82

فراڈ اور فراڈی


 سنو سنو!!
فراڈ اور فراڈی


(ناصرالدین مظاہری)


"اللہ کی پکار" دہلی سے ڈاکٹر حامد خالدی کا ایک ماہنامہ نکلتا تھا۔

اسی میں ایک عجیب واقعہ پڑھا تھا:


ایک بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک ایک شخص اٹھا اور بس والوں سے مخاطب ہوا:


> "بھائیو! میں غریب آدمی ہوں۔ میری فیکٹری میں آگ لگ گئی، اور میں بسترِ نرم سے خاکسترِ گرم پر آ گیا۔ میں کوئی سوال نہیں کروں گا، البتہ میری طبیعت خراب رہتی ہے، دل کا مریض ہوں۔ اگر میں مر جاؤں تو میری یہ بیٹی ہے، اس کا اپنے لڑکے سے نکاح کر دینا بس۔"


یہ سن کر ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور بولے:


"اتفاق کی بات ہے کہ آج میری کار خراب ہو گئی، اسی لیے میں اپنے جوان بیٹے کے ساتھ بس میں سفر کر رہا ہوں۔ آپ کی بیٹی بھی جوان اور خوبصورت ہے، میرا بیٹا بھی ماشاءاللہ خوش شکل و خوبرو ہے، میں کروں گا اپنے بیٹے کے ساتھ تمہاری بیٹی کا نکاح۔"


اسی بس میں ایک مولانا صاحب بھی بیٹھے تھے۔ وہ کھڑے ہو گئے اور بولے:


 "بھائیو! لگتا ہے یہ قبولیت کی گھڑی ہے۔ ڈرائیور! بس کو کنارے کرو، میں خود نکاح پڑھاؤں گا۔"


چنانچہ سارے لوگ خوشی خوشی اس نکاح میں شریک ہو گئے۔ مولانا صاحب نے نکاح پڑھایا، پھر اپنے بیگ سے مٹھائی کا ایک ڈبہ نکالا اور بولے:


 "اگرچہ لوگ زیادہ اور مٹھائی کم ہے کیونکہ میں نے اپنے بچوں کے لئے لی تھی، پھر بھی سبھی حضرات تھوڑی تھوڑی کھا لیں۔"


سبھی نے مولانا صاحب کا یہ تبرک کھایا اور مٹھائی کھاتے ہی بیہوش ہو گئے۔

ہوش آنے پر معلوم ہوا کہ سب کا قیمتی سامان غائب ہے!


پتہ چلا کہ وہ پانچوں "فراڈ" تھے،

انھوں نے لباسِ خضر میں اپنے اندر کے ڈاکو اور قزاق کو چھپایا ہوا تھا۔


ضروری نہیں کہ ہر سفید پوش ایماندار ہو،

یہ بھی ضروری نہیں کہ کرتا، ٹوپی اور داڑھی والا جبرئیلِ امین ہو،

اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر لجاجت پسند، حاجت مند اور منتوں کا عادی شخص واقعی مستحق ہو۔


یہ دور بڑے بڑے منافقوں بلکہ ڈاکوؤں کا ہے۔

ہر ڈاکو نئے چولے، نئے حُلیے میں آکر فراڈ کرتا ہے۔

اور فراڈ کا شکار ہونے والے بھی زیادہ تر "لالچ" میں پھنستے ہیں۔


اسی لالچ کا سہارا لے کر دنیا میں بڑے بڑے فراڈ ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے —

کیونکہ نہ حرص و لالچ ختم ہوگا، نہ چوروں اور رہزنوں کا یہ کاروبار۔


مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا:


 "عدالتیں ناانصافی کا قدیم ذریعہ ہیں۔"


اور آج کہا جا سکتا ہے کہ اب کوئی شعبۂ زندگی بچا ہی نہیں۔ہر قدم پر رہزن، ہر موڑ پر فراڈی، ہر گزرگاہ پر قزاق موجود ہیں۔


بعض لٹیرے شکل سے بڑے مسکین، شریف اور سیدھے سادے نظر آتے ہیں،

مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اندر سے بڑے بڑے "گرگوں " کے " استاد جی "ہوتے ہیں۔


بعض لوگ ذرا سی بات پر رونا شروع کر دیتے ہیں،

کچھ بات بات میں توبہ و استغفار کرتے ہیں۔

لیکن حضرت مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ اکبر الہ آبادی کا شعر پڑھا کرتے تھے:


 بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں

بہت آساں ہے یاروں سے “معاذاللہ” کہہ دینا


ایک اور شاعر کا کہنا درست ہی لگتا ہے کہ 


 اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار

اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت


فراڈ کے اسباب


فراڈ اور فراڈیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

حکومتیں گریں، سلطنتیں جھکیں، خزانے خالی ہوئے — مگر فراڈ ختم نہیں ہوا۔


سب سے پہلا اور پرانا سبب لالچ ہے۔

فراڈی ہمیشہ لالچ کے کنویں میں چارہ پھینک کر معصوم لوگوں کا شکار کرتے ہیں۔


"بس پانچ ہزار لگاؤ، پچاس ہزار پاؤ!"

"کل صبح تک ڈبل ہو جائے گا!"


اور انسان سوچتا ہے:


 "کیا پتہ قسمت کا بند دروازہ کھل جائے، دولت کی دیوی مہربان ہوجائے!"


لیکن حقیقت یہ ہے کہ قسمت نہیں عقل کی کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔


فراڈی لوگ باتوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔

ان کی زبان میں ایسا رس، انداز میں ایسا یقین ہوتا ہے کہ عقل دم توڑ دیتی ہے۔

وہ انسان کو اس کے اپنے ہی خواب سنا کر بہلاتے اور پھسلاتے ہیں ۔

خواب آپ کے، تعبیر ان کی جیب میں!


کچھ لوگ ہر مسکراتے چہرے کو سچا سمجھ لیتے ہیں۔

ایسے نیک دل مگر کم عقل لوگ ہی فراڈ کا سب سے آسان شکار بنتے ہیں۔


انسان محنت سے زیادہ "شارٹ کٹ" ڈھونڈتا ہے۔

فراڈی کو بس اتنا موقع چاہیے کہ وہ کہے:


 "یہ شارٹ کٹ صرف آپ کے لیے ہے!"


اور آدمی خوش ہو جاتا ہے کہ "دیکھو! قسمت مجھ پر مہربان ہے!"

حالانکہ قسمت نہیں، فراڈی مہربان ہوتا ہے۔


اکثر فراڈی سفید کپڑوں، میٹھے الفاظ اور مذہبی چال ڈھال میں آتے ہیں۔

ان کا مقصد ایمان جیتنا نہیں بلکہ اعتماد لوٹنا ہوتا ہے۔

ان کے کپڑے سفید، مگر نیت سیاہ ہوتی ہے۔


زیادہ تر لوگ کسی اسکیم، دکان، ویب سائٹ یا شخص کے بارے میں تحقیق نہیں کرتے،

نہ ہی گوگل پر سرچ کرتے ہیں، نہ کسی سے پوچھتے ہیں، بس سنتے ہیں اور مان لیتے ہیں اور پھر نتیجہ؟ “فراڈ پالیسی!”


جب کوئی فراڈ کا شکار ہو جاتا ہے تو شرمندگی کی وجہ سے بتاتا نہیں،

نتیجتاً دوسروں کو خبر نہیں ہوتی،

اور وہ بھی اگلے فراڈی کے جال میں جاکر پھنس جاتے ہیں۔

یعنی ایک کی شرم، دوسرے کی بربادی!


فراڈی کامیاب اس لیے نہیں ہوتے کہ وہ بہت چالاک ہیں،

بلکہ اس لیے کہ ہم بہت جلد یقین کر لیتے ہیں۔


فراڈیوں کے تانے بانے بہت دور تک پھیلے ہوتے ہیں۔

جیسے حضرت ہارون الرشید نے بادلوں کو دیکھ کر کہا تھا:


"جہاں چاہو برسو، تمہارا خراج مجھ تک پہنچے گا!"


بالکل یہی حال یہاں بھی ہے۔

ہر فراڈی کے کچھ سیاسی آقا، زمینی معاون، خفیہ محسن، خفتہ مشیر اور دبنگ صلاح کار ہوتے ہیں۔

یہ لوگ جرم ایسے کرتے ہیں کہ یقین بھی نہیں ہوتا،

ثبوت کا فقدان ان کو بچا لیتا ہے،

اور علاقہ کے دبنگ ثالث ان کے "شریکِ کار" بن جاتے ہیں۔


یہ کروڑوں کا غبن کر کے لاکھوں روپے غرباء اور مساکین پر خرچ کرنے کی ویڈیو وائرل کرتے ہیں،

بڑی شخصیات کے پاس آنا جانا بڑھاتے ہیں،

اور لوگ ان "سادہ و شریف" دکھنے والے شیطانوں کے جال میں ایسے جکڑ جاتے ہیں کہ —

نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن!


(پندرہ ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے