65a854e0fbfe1600199c5c82

شکایت پیٹی — اصلاح کا آئینہ


سنو سنو !!
شکایت پیٹی — اصلاح کا آئینہ

(ناصرالدین مظاہری)


انسان اور ادارے دونوں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ہی بہتر بنتے ہیں۔ جس معاشرے میں اصلاح کا دروازہ بند ہو جائے، وہاں بگاڑ اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے۔ اسی اصول پر کسی بھی ادارے میں "شکایت پیٹی" — یعنی عوام یا عملے کی آراء اور شکایات سننے کا نظام — دراصل اصلاح اور شفافیت کی علامت ہوتا ہے۔


پہلے زمانے میں بادشاہوں کے دربار میں ایسے افراد مقرر کیے جاتے تھے جن کا کام صرف یہ ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ کو رعایا کی شکایات اور خامیاں بتائیں۔ انہیں “نقیب” یا “محتسب” کہا جاتا تھا۔ ان کا فریضہ چاپلوسی نہیں بلکہ اصلاح اور نگرانی تھا۔ یہی اصلاحی جذبہ کسی حکومت، جماعت یا ادارے کو زندہ، متحرک اور معتبر رکھتا ہے۔


آج کے دور میں اگرچہ سرکاری دفاتر اور بڑے اداروں میں "شکایت پیٹی" کا تصور کہیں کہیں باقی ہے، مگر افسوس کہ نجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور دینی مراکز میں یہ روایت تقریباً مفقود ہوچکی ہے۔ وہاں تعریفیں تو سننے کو ملتی ہیں، مگر شکایات برداشت کرنے کا حوصلہ بہت کم ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شکایت کرنے والا شخص دشمن نہیں، بلکہ اصلاح کا خیر خواہ ہوتا ہے۔


جھوٹی تعریفیں انسان کو غفلت میں ڈال دیتی ہیں، جبکہ سچی شکایت اصلاح کے در وا کرتی ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے:


 “اللہ اس قوم پر رحم نہ کرے جو اپنے امیر سے حق بات کہنے سے ڈرتی ہو۔”


اسی طرح ایک دانا نے کہا:


 “میرا دوست وہ نہیں جو میری تعریف کرے، بلکہ وہ ہے جو میری غلطی بتادے۔”

اگر ہر ادارہ، ہر تنظیم، اور یہاں تک کہ ہر گھر بھی اپنے دائرے میں ایک “شکایت پیٹی” جیسا نظام قائم کرلے — چاہے وہ لکڑی کا ڈبہ ہو، ایک رجسٹر ہو یا ڈیجیٹل فارم — تو معاشرے میں انصاف، شفافیت اور اعتماد کے دروازے کھل سکتے ہیں۔


اصلاح کا پہلا قدم سماعت ہے۔

اور “شکایت پیٹی” دراصل سننے کی ایک ثقافت پیدا کرتی ہے۔ منتظم کی روشن دماغی، کشادہ قلبی اور ادارے کے لیے مثبت فکرمندی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب انسان میں شکایت سننے کا حوصلہ ہو۔


بعض اداروں میں باقاعدہ "رجسٹر شکایات" دیکھا گیا ہے۔ ایک دلچسپ تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب ٹرین 12231 (لکھنؤ تا چنڈی گڑھ) کے ابتدائی سفر میں، سفر مکمل ہونے سے قبل ایک عملے کے فرد نے میرے پاس ایک رجسٹر لایا اور کہا کہ اس ٹرین کے بارے میں اپنا تجربہ — مثبت یا منفی — درج کریں۔


مجھے یہ عمل بے حد پسند آیا، کیونکہ یہ خوب سے خوب تر کی طرف بڑھنے کا عکاس تھا۔


(چودہ ربیع الثانی 1447ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے