سنو سنو!!
آٹھ سال بعد مرے گی
(ناصرالدین مظاہری)
ہماری عادت ہوگئی ہے کہ ہم صرف ظاہری چمک دمک ، ہجوم اور ہٹو بچو سے متاثر ہوتے ہیں ، بڑا بزرگ اسی کو مانتے ہیں جن کے پاس مریدین کا ازدحام ہو، گاڑیوں کی قطاریں ہوں ، مواعظ اور ملفوظات کی مجالس ہوں لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
رُبَّ أَشْعَثَ أَغبرَ مَدْفُوعٍ بالأبوابِ، لو أَقسم على الله لَأَبَرَّهُ (مسلم)
"بہت سے پریشان حال، غبار آلود، لوگوں کی نظروں میں بے وقعت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ضرور اسے پوری فرما دیتا ہے۔"
أشعث أغبر سے ایسے بندے مراد ہیں جو ظاہری اعتبار سے کمزور، سادہ، فقیراور معمولی نظر آتے ہیں۔
مدفوع بالأبواب سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو لوگوں کی مجلس میں کوئی اہمیت نہیں ملتی، انھیں دروازوں سے ٹال دیا جاتا ہے۔
مگر اللہ کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا سرمایہ اخلاص اور تقویٰ ہوتا ہے۔
ان کے دل کی پاکیزگی اور تقویٰ کی وجہ سے اللہ ان کی قسم اور دعا قبول فرماتا ہے۔
اللہ کے نزدیک معیار تقویٰ ہے، نہ کہ ظاہری حالت، دولت یا دنیاوی حیثیت۔
بہت سے لوگ جو دنیا میں معمولی سمجھے جاتے ہیں، حقیقت میں اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں۔
نام منظور احمد تھا، پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں کیلو دروازے میں رہتے تھے ، بڑے صاحب خدمت تھے، سجدہ میں انتقال ہوا تھا ان ہی کے ایک اور ساتھی تھے جن کا نام اقبال احمد تھا،یہ دونوں عموما ساتھ رہتے تھے۔ایک دفعہ مالیر کوٹلہ سے کیرانہ آئے ہوئے تھے۔
کیرانہ کے لوگ ان سے بڑی عقیدت سے ملتے تھے یہ علم القیافہ کے ماہر تھے ، فال نکالنے میں بھی بے مثال تھے ۔ ملک میں ایمر جنسی نافذ تھی، ہر مجلس اور ہر زبان پر اندرا گاندھی کے ظلم و بربریت کے چرچے تھے ، کسی نے اقبال صاحب سے کہا کہ اجی اس اندرا کے ظلم وستم کے بارے میں بھی کچھ کرو دنیا پریشان ہے ،ہر شخص اس کے ظلم وستم کا شکار ہے یہ کب تک ہوتا رہے گا۔
حضرت اقبال صاحب نے اپنے تھیلے سے کاغذقلم نکالا ، کچھ لکھنا اور لکیریں کھینچنا شروع کیں پھر اچانک سر اٹھایا اور فرمایا:
"آج سے آٹھ سال بعد دہلی میں اندرا گاندھی اپنے ہی باڈی گارڈ کی گولیوں سے مرے گی"
لوگوں نے گن گن کر ایک ایک سال کاٹا ، ٹھیک آٹھ سال بعد اندرا گاندھی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکل کر کسی کام سے باہر نکلی ، اکتوبر کی31 تاریخ اور سن 1984 تھا جب اندرا کو ان ہی کے دو گارڈوں بینت سنگھ اور ستونت سنگھ نے درجنوں گولیوں سے سینہ چھلنی کردیا۔
سنو سنو:
ان بزرگوں کے پاس نہ جاسوسی نظام ہوتا ہے ، نہ سیاسی تعلقات ہوتے ہیں ، نہ ہی کسی طرح کے عوامی مراسم۔ کچھ بھی نہیں ہوتا مگر پھر بھی ان کا کہا ہوا اللہ تعالیٰ پورا فرمادیتا ہے کیونکہ یہ لوگ ہر چیز کو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں۔ ان سے بد ظنی ، بدگمانی ، ان سے عداوت اور ان سے نفرت بسااوقات ایمان سے محروم کر دیتی ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ بھی اولیاء اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کا اعلان جنگ فرماتا ہے۔
مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ
( بخاری)
“جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، تو میں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔”
( تیئس جمادی الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے