سنو سنو!!
آبِ زمزم: جسم و روح کی سیرابی
(ناصرالدین مظاہری)
آبِ زمزم محض ایک چشمہ نہیں… یہ تاریخِ ایمان کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔
یہ پانی نہیں… اللہ کی رحمت کی نوری موجیں ہیں جو صحرائے مکہ کی خاموش ریت سے پھوٹ کر قیامت تک انسان کے باطن کو تر و تازہ کرتی رہیں گی۔
جسم پیاس سے کمزور ہو جاتا ہے، مگر روح بھی کبھی کبھی بجھ جاتی ہے؛ عبادت کا شوق مدھم پڑ جاتا ہے، دل کے چراغوں پر ملال کی گرد جم جاتی ہے۔ ایسے لمحوں میں زمزم وہ الہامی گھونٹ ہے جو بجھی ہوئی روشنیوں کو دوبارہ بھڑکا دیتا ہے—
گویا انسان کے اندر کا مکہ دوبارہ زندہ ہو اٹھتا ہے۔
مکہ کی وادی اور خدائی راز
کیا کبھی سوچا کہ مکہ جہاں نہ ندیاں ہیں، نہ تالاب، نہ جھیلیں—صرف بےآب و گیاہ وادیاں— وہاں زمزم کا چشمہ کیوں جاری ہوا؟
اس کا پانی نہ بدبو پکڑتا ہے، نہ باسی ہوتا ہے، نہ زہریلے عناصر اس میں جگہ پاتے ہیں، اور نہ ہی صدیوں کی بھاری بھیڑ نے اسے کم کیا۔
روئے زمین پر کوئی نہر بھی اتنا پانی دیتی تو کب کی خشک ہو چکی ہوتی۔
اس راز کا جواب ایک ہی ہے:
یہ پانی انسان نے نہیں، ایک نبی نے مانگا تھا۔
یہ پانی اسماعیلؑ کی برکت ہے، ابراہیمؑ کی دعا کا فیضان ہے، اور ہاجرہؑ کی للّٰہیت کا معجزہ ہے۔
اسی لیے موسیٰؑ، سلیمانؑ، یونسؑ، زکریاؑ، عیسیٰؑ اور آلافِ انبیاء و صالحین اس سے سیراب ہوئے—اور اسے مزید مقدس کرتے چلے گئے۔
فیضانِ ابراہیمی:
زمزم فیضانِ ابراہیمی کی روشن تصویر ہے۔
وہ ابوالانبیاء جنہوں نے تسلیم و رضا کو زندگی کا محور بنا لیا—
جنہوں نے اللہ کے حکم پر بیوی اور بچے کو بےآب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا—
ان کے توکل کی خوشبو ہر قطرے میں موجود ہے۔
زمزم پیتے ہی دل میں ایک نیا یقین اترتا ہے—
ایک ایسا یقین جو انسان کو ابراہیمی سکون اور الوہی اعتماد سے بھر دیتا ہے۔
یادگارِ اسماعیلؑ:
زمزم حضرت اسماعیلؑ کے ننھے قدموں کی برکت ہے۔
جب انہوں نے ریت پر ایڑیاں رگڑیں تو زمین نے اذنِ ربانی سے پانی کا راستہ دے دیا۔
یہ پانی اطاعت، پاکیزگی اور عبدیت کی علامت ہے۔
اسے پینے والا اپنے اندر وہی نرمی اور خشوع محسوس کرتا ہے جو ایک معصوم نبی کے چہرے پر جھلکتا ہے۔
اماں ہاجرہؑ کی للّٰہیت کا معجزہ:
زمزم اصل میں ہاجرہؑ کی للّٰہیت کا جاری چراغ ہے۔
صفا اور مروہ کے درمیان ان کا دوڑنا، ان کی بےلوث محنت، ان کا صبر۔
اللہ نے اس تلاش کو رہتی دنیا تک عبادت بنا دیا۔
زمزم آج بھی اعلان کرتا ہے:
جو اللہ کے لیے دوڑتا ہے، آسمان اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے۔
جسمانی نہیں… روحانی پیاس کا پانی
سائنس کہتی ہے کہ پانی پیاس بجھاتا ہے۔
ایمان کہتا ہے کہ زمزم دل کی پیاس بجھاتا ہے۔
جب حاجی زمزم کا گھونٹ حلق میں اتارتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کی سوکھی وادیاں زندہ ہو رہی ہیں۔
دل دھل رہا ہے۔
اور روح کے در کھل رہے ہیں۔
زمزم صرف حلق تر نہیں کرتا۔
یہ دل کو صاف کرتا ہے، روح کو روشن کرتا ہے، غفلت کی گرد کو دھو دیتا ہے۔
عبادت کا ایندھن، روح کا رزق:
طواف کی تھکن اور سعی کی شدت کے بعد جب حاجی زمزم کے پاس آتا ہے تو صرف پانی نہیں پیتا—
وہ رحمت، نور اور قربت کا حصہ پی لیتا ہے۔
زمزم پینے والا محسوس کرتا ہے کہ:
دل میں نیا نور اتر رہا ہے.
عبادت میں تازگی آرہی ہے۔
تھکن سمٹ رہی ہے۔
دعا میں خشوع بڑھ رہا ہے۔
اللہ کی محبت ایک نئے درجہ پر جا رہی ہے۔
زمزم مجاہدہ اور ریاضت کی غذا ہے۔
یہ پانی اعلان کرتا ہے:
“جو میرے رب کے گھر آیا ہے، میں اسے خالی نہیں جانے دوں گا۔”
قبولیت کا راز:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“زمزم اس نیت کے مطابق ہے جس نیت سے پیا جائے۔”
یہ دنیا کی واحد مائع عبادت ہے جو نیت کا رُوپ دھارتا ہے۔
جو علم مانگے، اسے علم ملتا ہے۔
جو صحت چاہے، اسے صحت ملتی ہے۔
جو نور چاہے، اس کے دل میں نور اترتا ہے۔
زمزم کا ایک گھونٹ:
زمزم کا گھونٹ عجیب ہے۔
جسم مکہ میں کھڑا ہوتا ہے۔
مگر روح عرش کی طرف پرواز کرتی ہے۔
یہ پانی نہیں…یہ دعا ہے، یہ نسبت ہے،
یہ برکت ہے… یہ وہ تحفہ ہے جو حاجی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے دل میں رکھا جاتا ہے۔
کیا ایسا نہیں لگتا کہ اللہ نے طواف و حج کے مجاہدین کو سہارا دینے کے لیے،
فجِ عمیق کے مہمانوں کی پیاس بجھانے کے لیے اس چشمۂ صافی و شافی کو اپنے گھر والوں کا پانی بنا دیا؟
ورنہ صدیوں سے آنے والے لاکھوں زائرین پانی کی کس قدر مشقت اٹھاتے؟!
اے زائرِ حرم!
شکرانے کی دو رکعت ادا کیجیے کہ اللہ نے آپ کو ان لاکھوں افراد میں شامل کیا جنہیں اس دیارِ مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔
آپ سے کہیں زیادہ دولت مند لوگ ہیں جن کے نصیب میں یہ سعادت نہیں۔
طوافِ وداع کیجیے کہ خدا جانے دوبارہ کب بلاوا آئے۔
حجرِ اسود، مقامِ ابراہیم، حطیم، رکنِ یمانی، ملتزم اور کعبۃ اللہ کے بوسے لیجیے۔
غلافِ کعبہ سے لپٹ کر رو لیجیے کہ اس سے اچھی آغوش دنیا میں نہیں۔
اللہ کی نعمت زمزم خوب پیجیے کہ اس سے بہتر پانی زمین پر کہیں نہیں۔
اور یہ دعا ضرور کیجیے:
"اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا وَاسِعًا، وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ"
اے اللہ! میں تجھ سے نافع علم، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفا مانگتا ہوں۔
یا اللہ! میرے گناہوں کی بخشش فرما۔
یا اللہ! جسمانی و روحانی امراض،امتحان و آزمائش، تنگی و سستی، بےگاری و بے روزگاری سے پناہ عطا فرما۔
یا اللہ! یہاں کا آنا قبول فرما اور بار بار آنا مقدر بنا۔
(چھ جمادی الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے