65a854e0fbfe1600199c5c82

تحقیقِ حدیث: مجھے تین چیزیں محبوب ہیں!



 🌻 تحقیقِ حدیث: مجھے تین چیزیں محبوب ہیں!


▪️ حدیث: یہ روایت کافی مشہور ہے کہ: ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ حضرات صحابہ کی جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے تین چیزیں محبوب ہیں: عورتیں اور خوشبو، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: آپ کے چہرہ انور کی زیارت کرنا، آپ پر مال خرچ کرنا اور آپ کے پاس بیٹھنا۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ کرنا۔ اس پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا اور ننگے کو کپڑے پہنانا۔ اس پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: گرمیوں میں روزے رکھنا، مہمان کا احترام اور اکرام کرنا اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنا۔ اسی دوران حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: مسکینوں سے محبت کرنا، مسلمانوں کو پیغامِ الہیٰ پہنچانا اور امانت کو ادا کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں: صبر کرنے والا جسم، ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل۔


📿  تحقیقِ حدیث:

 ❶ کتبِ احادیث سے مذکورہ روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، چنانچہ مشہور محدث حضرت مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ: اس حوالے سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے، مزید یہ کہ اس کی کوئی صحیح، حسن یا ضعیف سند بھی نہ مل سکے گی۔ (نوادر الحدیث صفحہ: 374) اس لیے اس روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔


❷ واضح رہے کہ مذکورہ روایت الفاظ کے فرق کے ساتھ بعض حضرات متأخرین نے اپنی کتب میں ذکر فرمائی ہے لیکن ان سب نے کسی سند کے بغیر ہی ذکر فرمائی ہے، جبکہ اصولِ حدیث کی رو سے کسی روایت کے ثبوت کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہوا کرتی، یعنی محض اتنی سی بات سے کوئی روایت ثابت قرار نہیں دی جاسکتی۔


❸ بعض حضرات یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ روایت کیسے غیر ثابت اور غیر معتبر ہے جبکہ اس کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’منَبّہات‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب میں بھی یہ روایت بلا سند موجود ہے، اس لیے محض اتنی سی بات کسی روایت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں۔ دوم یہ کہ اس کتاب ’’منَبّہات‘‘ کی نسبت امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی طرف بہت مشکوک ہے، بلکہ مشہور محدث حضرت مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’منَبّہات‘‘ نہ تو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب ہے اور نہ ہی حافظ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کی کتاب ہے۔ اور اس کے متعدد دلائل اور وجوہات بھی ذکر فرمائی ہیں۔ دیکھیے: الیواقیت الغالیۃ جلد اول۔


❹ ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس تفصیل کے ساتھ مذکورہ روایت ثابت نہیں، البتہ جو بات صحیح روایت سے ثابت ہے وہ اتنی سی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ جیسا کہ ’’سنن النسائی‘‘ میں ہے:

3949- حَدَّثَنِي الشَّيْخُ الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْقُوْمَسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ». 

(كِتَاب عِشْرَةِ النِّسَاءِ: بَاب حُبِّ النِّسَاءِ)

صحیح روایات سے صرف اتنی ہی بات ثابت ہے، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ، حضرت جبریل علیہ السلام اور حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کا اپنی اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان کرنے کی روایت اور واقعہ ثابت نہیں۔


📿 احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل  اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:

⓵ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: « ... وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

⓶ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم  میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


📿 غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں  ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


⬅️ ایک اہم نکتہ:

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی  ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


⬅️ فائدہ: حدیث کو ثابت ماننے سے متعلق مروّجہ غلط فہمیوں کے ازالے اور احادیث بیان کرنے میں شدتِ احتیاط کے لیے بندہ کا رسالہ ’’احادیث بیان کرنے میں احتیاط کیجیے!‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے