سنو سنو!!
اجلاس صدسالہ اور فتنۂ جوالہ
(ناصرالدین مظاہری)
مجھ سے مولانا شریف احمد بھوپالی مدظلہ نے بیان کیا کہ میں دفتر والی مسجد کے صحن میں حضرت مولانا اطہرحسین رحمہ اللہ سے نفحۃ الیمن پڑھ رہا تھا اس وقت میرے ساتھ مولانا نثار احمد حسن پورلوہاری، مولانا اقبال احمد کاندھلوی ، ایکڑ خورد مدرسہ کے مہتمم صاحب اور مولانا عتیق مالیگاؤں وغیرہ بھی شریک درس تھے۔
دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کی تقریبات کی تیاریاں زوروں پر تھیں، یہ جلسہ سے تقریبا چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ پتہ چلا کہ اس صد سالہ اجلاس میں اندرا گاندھی بھی شریک ہوگی ۔ یہ سن کر حضرت مولانا اطہر حسین نے بڑی سنجیدگی اور تاسف کے ساتھ آیت کریمہ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ۔ پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
" بادشاه جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے"۔
حضرت نے آہ سرد بھرتے ہوئے فرمایا کہ اندرا گاندھی کا دارالعلوم میں آنا ٹھیک نہیں ہے ۔ اللہ رحم کا معاملہ فرمائے کچھ پتہ نہیں کیا کیا ہوگا۔
یہ اجلاسِ صد سالہ 21؍ اپریل 1982 تا 23؍ اپریل 1982ء کو ہوا تھا. اندرا گاندھی نے پہلے دن پروگرام میں شرکت کی تھی اور "بھاشن"کا موقع بھی دیا گیا تھا۔
مولانا شریف احمد مدظلہ کہتے ہیں کہ اس کے چھ ماہ بعد اجلاس ہوا ، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد دارالعلوم دیوبند میں اختلاف رونما ہوا ، دارالعلوم دیوبند پر تالہ لگا دیا گیا ، طلبہ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے ، میں ان کیمپوں میں بھی گیا اور حضرت مولانا اطہرحسین کے ارشاد گرامی کو حرف بحرف سچ ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی جو خانوادۂ حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی کے چشم و چراغ تھے ، بڑے عزت دار اور صاحب نسبت تھے انھیں بھی دارالعلوم دیوبند سے سے نکال دیا گیا۔
ذیل میں قاری صاحب موصوف کا رابطہ نمبر بھی محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ جن کو یقین نہ ہو وہ براہ راست فون کرکے یا جاکر ملاقات کرکے خود ہی تصدیق کرلیں۔ 9981837750
(چوبیس جمادی الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے