آہ ! پیر ذوالفقار نقشبندی
ناصرالدین مظاہری
وارد حال دارالعلوم وقف دیوبند
دو سال پہلے مدینہ منورہ میں تھا ، میرے دو ساتھیوں نے بتایا کہ ابھی مولانا محمد طلحہ نقشبندی مقیم حال بھیونڈی سے ملاقات ہوئی ہے۔ میں مولانا سے پہلے سے عقیدت رکھتا ہوں اور محبت بھی ، عقیدت اس لئے کہ وہ بھی حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کے مجاز ہیں اور محبت اس لئے کہ ان کے والد ماجد حضرت مولانا سید نفیس اکبر رحمہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ مظاہرعلوم سہارنپور کے فارغین و فاضلین میں سے تھے۔
میں نے مولانا کو واٹسپ پر میسیج کیا اور ملاقات کی تمنا ظاہر کی ، مقام شکر ہے کہ مولانا نے فورا جواب دیا کہ
"وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
مسجد نبوی کے اندر ، قدیم ترکی تعمیر کے فورا بعد جو چھتریاں ہیں انکے برابر داہنی طرف جہاں 3 کھمبے ہیں ، انہی کے آس پاس چھت کے نیچے جہاں جگہ مل جائے یہ عاجز اپنے احباب کے ساتھ وہیں بیٹھتا ہے ۔ ہوسکے تو افطار میں وہیں تشریف لے آئیں ۔
قیام گاہ پر تشریف لانا چاہیں تو ان شاء اللہ کل دوپہر یا رات میں کوئی ترتیب بنالیں گے ۔
آپکے پیغام سے بہت خوشی ہوئی"
میں الحمد للہ نشان زد جگہ پہنچ گیا ، کمال کی بات یہ ہے کہ رہنمائی اتنی زبردست اور علامت اتنی پختہ تھی کہ تین کھمبے اس ترتیب سے ایک جگہ وہاں کہیں اور نہیں نظر آئے ، دوران ملاقات بڑی شفقت و محبت اور خلوص سے پیش آئے ، یہ بھی بتایا کہ حضرت مرشد گرامی پیر جی ذوالفقار احمد صاحب دامت برکاتہم بھی تشریف لائے ہیں اور یہ کہ مکہ مکرمہ مکہ ٹاور میں قیام فرما ہیں ہیں۔
مجھے بھی مکہ مکرمہ جانا تھا سو مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور اپنے کرم فرما حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری مدظلہ کو میسیج کرکے پیر صاحب سے ملاقات کی ترتیب معلوم کی، مولانا نے فورا ایک نمبر شیخ بلال احسن دبئی کا بھیجا اور فرمایا کہ یہ حضرت کے خادم خاص ہیں بات کرکے حسب نظام ملاقات کرلیں۔
میں نے عرض کیا کہ ملاقات سے پہلے ہی میرا دل دھک دھک کررہا ہے ۔ فرمایا حضرت تو بہت شفیق ہیں۔
خیر شیخ بلال احسن نے عصر کے متصلاً بعد مکہ ٹاور 2 پہنچ کر فون کرنے کا مشورہ دیا، میں اپنے ہوٹل سے کافی پہلے نکلا مگر مشیت ایزدی کہ انسان بس میں بے بس رہتا ہے میں بھی بے بسی کے ساتھ پہلو بدلتا رہا ، جب مکہ ٹاور 2 پہنچا تو کافی دیر ہوچکی تھی۔شیخ بلال احسن کو فون کیا تو جواب دیا کہ حضرت آپ کا انتظار کرکے لیٹ گئے ہیں اور اب پھر کل اسی وقت ملاقات ہوگی۔
بہرحال ملاقات نہ ہوسکی ، ہمارا اگلے دن کا نظام پھر مدینہ منورہ جانے کا تھا سو ہم مدینہ منورہ چلے گئے۔
کافی سال پہلے جب دیوبند تشریف لائے تھے اور وقف دارالعلوم دیوبند میں لاکھوں کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی تو الحمدللہ میں بھی شریک تھا ، کیا ہی خطاب تھا اس خطاب کی بہت سی باتیں اب بھی دل و دماغ میں موجود و محفوظ ہیں۔
آج دارالعلوم وقف دیوبند میں حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی ذات و خدمات پر سیمینار کے دوران اچانک مولانا محمد سلمان بجنوری مدظلہ کو ایک کال آئی اور حضرت دہاڑیں مار کر روپڑے تب لوگوں کو پتہ چلا اور پھر محترم مولانا محمد شکیب قاسمی نے حضرت مولانا احمد خضر کشمیری مدظلہ کو اطلاع دی اور حضرت مولانا احمد خضر کشمیری مدظلہ نے تمام حاضرین کو یہ خبر کلفت اثر سناکر پورے ملک و بیرون میں رنج و غم میں مبتلا کردیا ۔ چونکہ سیمینار جاری ہے اور سیمینار بھی لائیو چل رہا ہے اس لئے منٹوں سیکنڈوں میں جنگل کی آگ سے کہیں زیادہ تیزی سے یہ خبر پھیل گئی۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ میں بھی اسی سیمینار میں بیٹھے بیٹھے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
اللہ پاک حضرت پیر صاحب مدظلہ کے سلسلہ کو ، ان کی خدمات کو قبولیت عامہ و تامہ عطا فرمائے ۔
22/جمادی الاخری 1447ھ

0 تبصرے