سنو سنو!!
مقررین ہوشیار رہیں
(ناصرالدین مظاہری)
یہ وہ زمانہ نہیں رہا جب وعدہ، امانت اور مروّت صرف کتابی الفاظ ہوا کرتے تھے۔ خیرالقرون سے جوں جوں فاصلے بڑھے، شرالقرون نے نہ صرف دروازہ کھٹکھٹایا بلکہ اندر آ کر کرسی بھی سنبھال لی۔ اب اخلاق صرف تقریروں میں ہیں، عمل کہیں راستے میں گم ہو چکا ہے۔
اب تو حال یہ ہے کہ آدمی اپنے سگے کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اجنبی تو خیر اجنبی ہے، یہاں دوست بھی شک کے دائرے میں اور عزیز بھی احتیاط کی فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے واقعات روز سننے میں آتے ہیں کہ بھلا انسان بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ حسنِ ظن کو گھر میں قید کر دے اور دروازے پر بڑا سا تالا لگا دے۔
دارالعلوم دیوبند کے اساتذۂ حدیث، حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمیؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ جن کے نام سے آج بھی علمی مجالس میں وقار ٹپکتا ہے ایک گاؤں میں جلسے کے لیے بلائے گئے۔ تقریر ہوئی مگر جونہی مائک خاموش ہوا، منتظمین ایسے غائب ہوئے جیسے زمین نگل گئی ہو۔
نہ کھانا، نہ بستر، نہ کرایہ، نہ صرفہ!
سردی کی رات، غربت کا سایہ، اور سواری کا نام و نشان نہیں۔ آخرکار دھان کی پرالی ہی وہ “گیسٹ ہاؤس” بنی جس میں وقت کے یہ دو محدث سمٹ کر رات گزار گئے۔ صبح فجر کے بعد پیدل روانگی ہوئی، جیب خالی تھی، اور عزتِ علم کا بوجھ کندھوں پر تھا۔ آدھا راستہ طے ہوا تو کہیں جا کر قسمت کو رحم آیا اور ایک سواری مل گئی۔
یہ واقعہ ان بزرگوں کے صبر کا نہیں یہ ہمارے نظام کی رسوائی کا نوحہ ہے!
پوچھنا یہ ہے کہ جب انتظام نہیں، تو اعلان کیوں؟ جب استطاعت نہیں، تو دعوت کس لیے؟ کیا ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اسی لیے بلائے گئے کہ ان کو بے توقیر کیا جائے؟اورسونے کے لئے بستر تک نہ دیا جائے اور پرالی آخر کار پرالی میں سونے پر انھیں مجبور ہونا پڑا؟
اور سنو! یہ قصہ کوئی پرانا نہیں۔
مجھے خود ایک پروگرام میں واپسی پر کرایے کے نام پر ایک بند لفافہ تھمایا گیا خوب گوند سے چپکا ہوا، گویا امانت پر مہرِ تصدیق ہو۔ جب کھولا تو تین سو روپے برآمد ہوئے، حالانکہ کرایہ ایک ہزار طے تھا اور منتظمین کو سب معلوم تھا۔
تب سے بند لفافہ دیکھ کر دل کھلتا نہیں، بلکہ ہاتھ خود بخود رک جاتا ہے۔
اسی لیے خطیبِ اسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کا وہ جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے:
“لفافہ کھول کر رقم گن کر دو، تاکہ بات صاف رہے اور قیامت تک صفائیاں نہ دینی پڑیں۔”
تجربات انسان کو صرف محتاط نہیں بناتے، کندن بنا دیتے ہیں۔
اور یہ بات بھی گرہ میں باندھ لیجیے کہ:
عقل بادام کھانے سے نہیں، ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔
سنو سنو!!
اگر مقرر بلاتے ہو تو عزت کے ساتھ بلاؤ،
ورنہ خاموشی اختیار کرو کہ خاموشی کی بے ترتیبی، بے مروّت انتظام سے کہیں بہتر ہے۔
(چوبیس جمادی الاخری چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے