65a854e0fbfe1600199c5c82

پیشہ ور مقررین



 سنو سنو!!


پیشہ ور مقررین


(ناصرالدین مظاہری)


میں نے 1992 کے اواخر تک زیدپور، بارہ بنکی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ہمارے زمانے میں ایک مقرر صاحب بہت مقبول و مشہور تھے، ہر جلسے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ جگہ جگہ ان کی آمد پر، یا انھیں بلا کر، جلسے اور جلسی کروائے جاتے تھے۔ مقرر صاحب کے وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ بچہ بچہ ان کی تقریر سے واقف ہو گیا تھا۔ تقریر میں بیان کردہ واقعات اور نکات ازبر ہو گئے تھے۔ دورانِ تقریر بچے کہتے نظر آتے کہ اب یہ واقعہ بیان ہوگا، اب یہ چٹکلہ سنائیں گے، اب یہ کہیں گے، وہ کہیں گے۔ نوبت یہ آئی کہ پھر لوگوں نے انھیں بلانا ہی چھوڑ دیا، کیونکہ لوٹ پھر کر لوگ کب تک وہی باتیں سنتے۔


یہ پیشہ ور مقررین کی عام عادت ہے کہ وہ مطالعہ بالکل نہیں کرتے؛ وہی باتیں، وہی کہانیاں اور وہی قصے۔ یہ لوگ کرائے سے کئی گنا زیادہ وصولتے ہیں، بعض تو پچیس پچیس ہزار تک لیتے ہیں۔


کچھ مقررین لوگوں کی بھیڑ بھاڑ جمع کرنے کے لیے من گھڑت قصے کہانیاں سناتے ہیں، کچھ صرف ہنسانے پر یقین رکھتے ہیں، کچھ عجیب و غریب نقلیں اتار کر جلسہ گاہ کو کامیڈی گاہ بنا دیتے ہیں۔ رات رات جلسے کر کے فجر سے پہلے سو جاتے ہیں۔ کچھ احادیث بتا کر اپنی باتیں بیان کرتے ہیں، اور ان کا نفس انھیں بہکاتا پھسلاتا ہے کہ تمہاری نیت تو ٹھیک ہے؛ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو حدیث نہ ہو، ناجائز ہے، اور ایسے شخص کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ آپ کسی کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے حدیث گھڑ نہیں سکتے، یہ حرام عمل ہے۔


ایک مقرر کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پہلے اپنے اکاؤنٹ میں منہ مانگی رقم منگواتے ہیں، اور شرطیں ایسی لگاتے ہیں کہ مجھے لانے کے لیے جو کار ہو وہ نئی یا معیاری ہو، میرے کمرے میں فلاں فلاں چیزیں رکھوا دی جائیں، پانی منرل چاہیے، چائے کشمیری ہو، کھانے میں بکرا اور مچھلی ہو، وغیرہ وغیرہ۔


میں ایک مقرر کو جانتا ہوں؛ وہ تقریر کے لیے صرف کثیر رقم کے بعد پہنچے، اور کوئی بات خلافِ مزاج ہو گئی تو تقریر کے بغیر کرایہ لے کر واپس ہو گئے۔ سوچیے، یہ کرایہ کس بات کا لیا ہے؟ مزاج کی ایسی کی تیسی! جب تم نے روپے لے لیے تو اب مزاج کیسا؟ تم زرخرید لونڈی اور غلام بن گئے ہو، تم نے ثمنِ قلیل پر خود کو گروی رکھ دیا ہے۔ تمہاری تقریر منڈی میں لگنے والے سامان کی سی ہو گئی ہے۔ تم نے وہ کام کیا ہے جو مزاجِ شریعت سے ہم آہنگ نہیں۔ تم کو کرایہ لینے سے منع نہیں کیا گیا، لیکن لوٹ مار کی اجازت کس نے دی؟ کیا وہ تقریریں کبھی معاشرے کو بدل سکی ہیں جن کی بنیاد ہوا و ہوس پر ہو، نفس و خواہش پر ہو؟ روپے کی کھنک اور سکے کی چمک انسان کی زبان پر تالے اور عقل پر جالے ڈال دیتی ہے۔ تم نے لوگوں کی جیب پر ڈاکے ڈال کر تقریر فروشی اور ضمیر فروشی کی طرح ایک نئی بنیاد ڈال دی ہے۔


جلسہ گاہ سے ہٹتے ہی لوگوں کی زبانوں پر تمہارا منفی تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ لوگ چندہ کر کے تمہیں بلاتے ہیں، بہت سے لوگ جبر و اکراہ کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ کبھی تم نے اس خرید و فروخت کے خلاف بھی تقریر کی؟ کبھی دوبارہ جا کر تحقیق کی کہ تمہاری تقریر سے معاشرہ کہاں تک بدلا؟ نمازیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا؟ جہیز کی لت، بدعت اور رسمیں ختم ہوئیں یا مزید بڑھ گئیں؟ باجے گاجے، حرام خوری و حرام کاری، سود کی گرم بازاری، جوئے اور نشے کی نحوست پر آپ کی تقریر اثرانداز ہوئی، یا محض ایکشن کا ری ایکشن ہو گیا؟


سچ کہوں تو تمہاری وجہ سے جو ٹینٹ لگایا جاتا ہے، کرسیاں منگوائی جاتی ہیں، فرش بچھوایا جاتا ہے، میدان ہموار کرایا جاتا ہے، گڑھے بھروائے جاتے ہیں اور قناتیں کھڑی کی جاتی ہیں—ان سب کا حساب دکاندار کو مدتوں تک کرنا اور ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ خرچ صرف تمہاری جیب میں نہیں ٹھونسا جاتا، بلکہ اس کے ساتھ بے شمار دیگر اخراجات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔


 ( پچیس جمادی الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے