چائے وہ بھی دیوبند کی
(ناصرالدین مظاہری)
چائے ایک شۓ لطیف ہے ، محض مشروب نہیں، ایک کیفیت، ایک ذائقۂ جاں، ایک خاموش رفاقت۔ اس میں حلاوت بھی ہے کہ ہونٹوں پر آتے ہی دل میں اتر جائے، ملاحت بھی ہے کہ تلخی کو شائستگی سے سنبھال لے، صباحت بھی ہے کہ سادہ ہونے کے باوجود دلآویز ہو۔ اس کا رنگ آنکھوں کو بھاتا ہے اور اس کی لطافت اعصاب کو تھام لیتی ہے۔ پاکیزگی ایسی کہ خیال دھل جائیں، جاذبیت ایسی کہ گفتگو خود بخود بہنے لگے۔
چائے کی قیمت موسموں کے ساتھ بدلتی رہتی ہے؛ گرما میں اس کی قدر کم ہو جاتی ہے کہ پیاس کے ہنگامے میں لوگ اسے بھول جاتے ہیں، برسات میں اس کی مانگ بڑھتی ہے کہ بادلوں کی گرج کے ساتھ اس کی بھاپ بھی دل کو بہلائے، اور جاڑے میں جاڑے میں تو یہ رفیقۂ حیات بن جاتی ہے۔ صبح کی خاموشی میں اخبار کے کنارے، دوپہر کی تھکن میں وقفے کی صورت، شام کی اداسی میں گفتگو کا بہانہ، اور رات کی تنہائی میں خیالوں کی ہم نشیں—چائے ہر ساعت اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
چائے کا کپ ہاتھ میں آئے تو وقت ٹھہر سا جاتا ہے۔ بھاپ میں لپٹے لمحے یادوں کے دریچے کھول دیتے ہیں۔ کسی کی ہنسی کی بازگشت، کسی کی بات کا تسلسل، کسی خاموشی کی گہرائی سب کچھ اسی پیالی میں سمٹ آتا ہے۔ یہ وہ مشروب ہے جو اجنبیت گھٹاتا اور قربت بڑھاتا ہے؛ میز پر رکھے دو کپ اکثر دو دلوں کے درمیان پل بن جاتے ہیں۔
گھروں میں چائے اعلانِ مہمان داری ہے۔ “چائے بنا لیں؟” یہ جملہ دراصل “ ٹھہریے، آپ اپنے ہیں” کی شائستہ صورت ہے۔ دفتر میں یہ تھکن کا مرہم ہے، سفر میں ہم نشینی کا سامان، اور بارش میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر پینے کا نام مکمل جمالیات۔ اس کی خوشبو میں ایک وعدہ ہے سکون کا، گفتگو کا، ٹھہراؤ کا۔
یوں چائے نہ صرف ذائقہ ہے بلکہ تہذیب ہے؛ نہ صرف عادت بلکہ روایت؛ نہ صرف گرمی بلکہ گرہِ دل۔ اسے پیجیے تو یوں کہ لمحے میٹھے ہو جائیں، باتیں نرم پڑ جائیں، اور زندگی کم از کم ایک کپ کے وقت تک خوبصورت لگنے لگے۔
چائے اچھی ہو، ماحول خوشگوار ہو، لوگ دل نواز ہوں یعنی محفل کی ساری شرطیں پوری ہوں اور پھر بھی آدمی چائے سے پہلو تہی کرے تو یہ دو ہی باتوں پر دلالت کرتا ہے:
یا تو ذوق میں کہیں کھوٹ ہے، یا پھر نعوذ باللہ چائے ہی بدذائقہ ہے۔ اس کے سوا تیسری کوئی معقول توجیہ اب تک اہلِ ذوق دریافت نہ کر سکے۔
چائے کا معیاری ہونا شرطِ اوّل ہے؛ مگر افسوس کہ چائے بھی ہمارے معاشروں کی طرح موسموں، سیاسی حالتوں اور ملکی تبدیلیوں کا پورا اثر قبول کر لیتی ہے۔ کہیں یہ دودھ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے گویا دودھ اس کا جزوِ لاینفک ہو اور کہیں نمک کے ساتھ پی جاتی ہے، جیسے نمک خواری کی علامت ہو۔ کہیں پانی کی ایسی کثرت کہ دودھ کے چند قطرے ڈال کر چائے کی عصمت دری کر دی جاتی ہے، اور کہیں لیمو کی ترشی، کہیں زعفران کی خوشبو—کہیں کچھ، کہیں کچھ۔ یہی تو چائے کی وسعت ہے؛ یہی اس کا ظرف، یہی اس کی ہمہ گیری۔
چائے ہر خطے میں اپنا رنگ بدل لیتی ہے مگر اپنی پہچان نہیں کھوتی۔ یہ سیاست کی طرح مزاج رکھتی ہے، موسم کی طرح رخ بدلتی ہے، اور تہذیب کی طرح خود کو ڈھال لیتی ہے۔ کسی دیس میں یہ صبح کی اذان کے بعد کی ساتھی ہے، کہیں شام کی تھکن کی دوا، اور کہیں رات کی محفل کی جان۔ ایک پیالی میں کبھی سادگی سما جاتی ہے، کبھی تکلف، کبھی غربت کی قناعت اور کبھی امارت کی نمود۔
اصل بات یہ ہے کہ چائے اختلاف کو برداشت کر لیتی ہے۔ وہ دودھ میں بھی مسکرا لیتی ہے، نمک میں بھی نبھا لیتی ہے، لیمو میں بھی اپنی شناخت قائم رکھتی ہے اور زعفران میں بھی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے چائے اہلِ ذوق کو محبوب ہے؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وسعتِ ذوق وہی ہے جو ہر ذائقے کو جگہ دے۔
سو اگر کبھی مکمل ماحول میں مشعل کمپلیکس دیوبند کے قریب منوہر ٹی اسٹال کی چائے پیش ہو یا مولانا محمد ارشد مدنی مدظلہ کے دولت کدہ کے پاس اوپ سرپنچ والی شاندار و جاندار چائے کی پیشکش کی جائے اور آپ پھر بھی انکار کر دیں تو ذرا اپنے ذوق بد پر نظرِ ثانی ضرور کیجیے کہ چائے تو اکثر بہانے ڈھونڈ لیتی ہے، انکار نہیں۔
مجھے تو محلہ خانقاہ میں مولانا بدرالاسلام قاسمی نے اور مشعل کمپلیکس میں مولانا نور الحسن پرتاب گڑھی نے چائے پلائی اور ایسی پلائی کہ دوبارہ وہاں جانے کے حیلے بہانے ڈھونڈ رہا ہوں۔

0 تبصرے