65a854e0fbfe1600199c5c82

نقل اور نقالی



 سنو سنو!!
نقل اور نقالی


(ناصرالدین مظاہری)


یہ بات شاید ہنسی میں کہی جاتی ہے، مگر حقیقت میں رونے کے قابل ہے کہ ہمارے تعلیمی، دینی اور طلبہ حلقوں میں ایک ناپسندیدہ روش خاموشی سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے: کسی کی آواز کی نقل، کسی کے چلنے کا انداز، کسی کے ہاتھ ہلانے کی نقالی، کسی کے مخصوص جملوں کی نقل… اور جب یہ سب کسی بزرگ، کسی استاد، یا کسی دینی و ملی شخصیت سے متعلق ہو تو معاملہ محض مذاق نہیں رہتا، بلکہ ادب کے دائرے سے نکل کر تمسخر کے خانے میں داخل ہو جاتا ہے۔


*ایک مشاہدہ، ایک المیہ*


یہ مشاہدہ اب عام ہوتا جا رہا ہے کہ بعض طلبہ محض قہقہوں کی خاطر اکابر کی گفتگو، لب و لہجہ یا اندازِ بیان کی نقل اتارتے ہیں۔


کچھ طلبہ اپنے استاذ کی چال، نشست، یا اندازِ تدریس کی نقالی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، اور کچھ مقررین دوسروں کی تقاریر میں ہاتھ ہلانے، آواز بلند کرنے یا وقفے بنانے کی نقالی کو "فنِ خطابت" سمجھ بیٹھتے ہیں۔


یہ سب کچھ فن نہیں، بلکہ تقریباً فتنہ ہے؛ نیت ہنسی کی ہو تب بھی نتیجہ تحقیر یا تمسخر ہی نکلتا ہے۔


*قرآن مجید کی صاف ہدایت:*


اللہ تعالیٰ کا بے لاگ حکم ہے:


لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ (حجرات)


مفسرینِ کرام نے واضح کیا ہے کہ سُخریہ صرف زبان سے ادا کیے گئے الفاظ تک محدود نہیں، بلکہ اس میں اشارے، حرکات، انداز، آواز اور نقالی سب داخل ہیں۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:


السخرية تكون بالقول والفعل والإشارة

(مذاق قول سے بھی ہوتا ہے، فعل سے بھی اور اشارے سے بھی)


گویا کسی استاد یا بزرگ کی نقالی خواہ قہقہوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس آیتِ قرآنی کے دائرے سے باہر نہیں۔


*حدیثِ نبوی اور تحقیر کا معیار:*


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:


 بحسب امرئٍ من الشر أن يَحْقِرَ أخاه المسلم (صحیح مسلم)


یعنی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔


اہلِ علم لکھتے ہیں کہ تحقیر کبھی صریح لفظوں سے ہوتی ہے اور کبھی نقالی، طنز اور ہنسی کے پردے میں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ہمیں رک کر سوچنا چاہیے:


کیا کسی استاد یا بزرگ کی نقل اتارنا، دل میں اسے چھوٹا سمجھے بغیر ممکن ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ہنسی کا یہ ذریعہ روحانی خسارے کا سبب ہے۔


*ادبِ اساتذہ کہاں گیا؟*


استاد وہ ہوتا ہے جس کے لہجے میں علم، خاموشی میں وزن اور انداز میں وقار ہوتا ہے۔ اس کے چلنے، بولنے یا پڑھانے کے انداز کی نقل کرنا علم نہیں، بلکہ ادب کے جنازے پر قہقہہ ہے۔


حضرت علیؓ کا قول ہے:


 من علّمني حرفاً فقد صيّرني عبداً۔


جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔


جب استاد کا مقام یہ ہو تو اس کی نقالی دراصل علم کی توہین ہے۔ اسی لیے اکابر فرمایا کرتے تھے:


جس نے ادب چھوڑا، وہ علم سے بھی محروم ہوا۔


*اکابر کی مشابہت یا نقالی؟*


اکابر کی پیروی دو طرح کی ہوتی ہے:


1. اتباع : علم، تقویٰ، اخلاص اور استقامت میں مشابہت


2. نقالی : آواز، انداز، ہاتھ ہلانا اور مخصوص جملے چرا لینا


پہلی سنت اور سعادت ہے، دوسری اکثر تمسخر۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں:


ما فسد العلماء إلا بحبّ الرياسة


یعنی علماء کا بگاڑ شہرت کی خواہش سے شروع ہوتا ہے، اور نقالی بھی اکثر تالیاں اور داد سمیٹنے کی خواہش ہی کا شاخسانہ ہوتی ہے۔


*مزاح اور تمسخر میں فرق:*


اسلام خشک مذہب نہیں؛ مسکراہٹ، خوش طبعی اور لطیف مزاح کی اجازت دیتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ:


کسی کی ذات نشانہ نہ بنے.

کسی کی کمزوری اچھالی نہ جائے.

کسی کے وقار پر ضرب نہ لگے.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح بھی کرتے تو حق کے دائرے میں۔ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ وہ مزاح حرام ہے جس میں اذیت ہو۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں:


 المزاح إذا أفضى إلى الإيذاء حرم


جو مزاح کسی کے دل کو توڑ دے، وہ شریعت میں مزاح نہیں بلکہ اذیت ہے۔


*ادب گیا، علم گیا:*


اگر کل کو کوئی آپ کی آواز، آپ کے لہجے یا آپ کے اخلاص کی نقل اتار کر ہنسے تو کیا آپ اسے صرف مذاق سمجھ پائیں گے؟ اگر نہیں، تو دوسروں کے لیے بھی وہی پیمانہ رکھئے۔


نقل اتارنا ہنسی پیدا کرتا ہے، مگر احترام ختم کر دیتا ہے، اور جس ماحول سے احترام اٹھ جائے وہ علم کا گہوارہ نہیں رہتا۔


قہقہوں سے مجلس گرم کی جا سکتی ہے، مگر دلوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ادب ہی کافی ہے۔


جو قوم اپنے بڑوں پر ہنسنا سیکھ لے، وہ کل اپنے اصولوں پر بھی ہنسنے لگتی ہے۔


ادب بچا تو علم بچا، ادب گیا تو سب گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے