65a854e0fbfe1600199c5c82

اس وقت مصافحہ نہ کریں



 سنو سنو!!


اس وقت مصافحہ نہ کریں


(ناصرالدین مظاہری)


آپ کسی بزرگ کی خدمت میں پہنچے، سردی کا موسم ہے، آپ کے ہاتھ ٹھنڈے ہیں، بزرگ نے اپنے آپ کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے کمبل میں لپیٹ رکھا ہے۔ اب آپ کی دانشمندی یہ ہے کہ صرف سلام کرکے جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیں۔ مصافحہ کے لیے مجمع کو چیر کر یا لوگوں کو کھسکا کر آگے مت جائیں۔ آپ یقیناً بزرگ کی محبت و عقیدت میں دعا کی غرض سے پہنچے ہیں، تو پھر راحت رسانی کا مزاج بنائے رکھیں۔ جو جگہ خالی ملے، بیٹھ جائیں، کیونکہ یہاں آپ مراد نہیں، مرید ہیں؛ مرشد نہیں، مسترشد نہیں؛ مطلوب نہیں، طالب ہیں۔

مصافحہ صرف سنت ہے، اور سلام و مصافحہ میں فضیلت اور اہمیت سلام کو حاصل ہے۔ بے شک مصافحہ کریں، لیکن حالات اور تقاضوں کو محسوس کرکے۔

مصافحہ: سنت، مگر ہر حال میں نہیں

اسلام ایک ایسا دین ہے جو ظاہر کے ساتھ باطن، رسم کے ساتھ حکمت، اور عمل کے ساتھ ادب سکھاتا ہے۔ مصافحہ بھی انہی اسلامی آداب میں سے ہے جو محبت، اخوت اور باہمی تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ احادیثِ نبویہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر عمل رہا ہے۔

لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مصافحہ سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور نہ ہی شریعت نے اسے ہر حال میں لازم قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ملاقات فرماتے تو مصافحہ کرتے، مگر شریعت کا عمومی مزاج یہ ہے کہ ہر عمل موقع و محل کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ اسی لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جہاں تکلف، تکلیف یا بے موقع پن ہو، وہاں بعض مستحب اعمال کو ترک کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

چنانچہ ایسے مواقع پر مصافحہ نہ کرنا عین مناسب ہے:

جب دونوں ہاتھ مصروف ہوں۔

جب ہاتھ چادر یا آستین کے اندر ہوں۔

جب ہاتھ گیلے، آلودہ یا ناپاک ہوں۔

جب گفتگو یا کام میں مشغول ہو۔

جب ہاتھ ناپسندیدہ چیز سے لگے ہوں۔

ایسے حالات میں مصافحہ پر اصرار کرنا نہ سنت ہے، نہ سلیقہ؛ بلکہ بسا اوقات دوسرے کے لیے تکلیف یا ناگواری کا باعث بن جاتا ہے، جبکہ شریعت کا اصول ہے: لا ضرر ولا ضرار — نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سلام کہنا خود ایک مستقل سنت اور عظیم عبادت ہے۔ مصافحہ نہ ہونے کے باوجود خندہ پیشانی، دعائیہ کلمات اور احترام بھرے انداز سے ملاقات کرنا مکمل اسلامی طرزِ عمل ہے۔

افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بعض لوگ مصافحہ کو لازمی رسم سمجھ کر اس کے نہ ہونے پر دل میں رنجش یا بدگمانی پیدا کر لیتے ہیں، حالانکہ اصل روح اخلاص، محبت اور ادب ہے، نہ کہ محض ہاتھ ملانا۔ بعض لوگ بظاہر سمجھ دار لگتے ہیں، خود کو ہوش مند بھی سمجھتے ہیں، کسی بڑے عالم کا شاگرد یا کسی پیر و مرشد کا مرید و خلیفہ بھی بتاتے ہیں، لیکن یہی صاحب جب کسی بزرگ سے ملنے جاتے ہیں اور بزرگ کسی پہلو تشریف فرما ہوں، یا کوئی ایسی مشغولی ہو کہ ہاتھ بڑھانا ان کے لیے بے آرامی کا باعث بنے، پھر بھی یہ صاحب ہاتھ بڑھائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ میرے بس میں نہیں، ورنہ ایسوں کو صاف کہہ دوں کہ پہلے آدابِ سلام پڑھ اور سیکھ لو۔


(چار رجب المرجب چودہ سو سینتالیس ہجری نزیل حال کاؤنلی دہرہ دون)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے