دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
9 رجب 1447ھ 29 دسمبر 2025ء
مجتہد اور قاضی کی تعریف میں صاحبِ ہدایہ کہتے ہیں کہ محدث ہو اور فقہی ذوق سے عاری نہ ہو، یا فقیہ ہو اور حدیث پر بھی نظر رکھتا ہو، جامع تعبیر میں کہہ سکتے ہیں کہ قاضی یا تو "محدث فقیہ" ہو یا "فقیہ محدث" ہو، یعنی ایک رنگ غالب ہو؛ لیکن دوسرا رنگ معدوم نہ ہو۔
دونوں اداروں کے بعض رنگ خاص ہیں؛ مگر دوسرے رنگ معدوم نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے جب دونوں کی تقریبِ تسمیہ لفظ دارالعلوم پر ہی منتہی ہوئی؟ اسلام کی عظیم الشان لکھنؤ اکائی کے تعلق سے یہ تاثر نمایاں ہوتا ہے کہ وہ زبانِ ہوش مند ہے؛ مگر میں ایک ندوی فاضل سے آج بھی فقہی استفادہ کرتا ہوں۔
مینارۂ دیوبند کے تعلق سے بجا طور پر یہ ذہن ہے کہ وہاں شریعت کے ماہر پیدا ہوتے ہیں؛ مگر اس کے چمن میں زبان وادب کے پھول بھی متواتر مہکے؛ یہاں تک کہ ادب کی ایک تاریخ اس کی آغوش میں کھیلی، ہماری دونوں زبانوں: اردو اور عربی نے اس کے سینوں اور سفینوں میں سنگ میل عبور کیے۔
علمی گہرائی، تعلیمی مضبوطی، فقہی اختصاص اور ادارہ جاتی نیٹ ورک والا دیوبند، نظریاتی توسع، فکری حصے داری، تہذیبی ذمے داری اور عالمی رابطے کی اہمیت کا منکر نہیں، اسی طرح عالم عرب سے فکری رشتے کے حامل، عربی ادب میں بر صغیر کی زبان کہلانے والے اور دعوتی اسلوب میں عالمی پہچان بنانے والے اہل لکھنؤ علومِ شریعت کی اولیت پر بعینہ ایمان رکھتے ہیں۔
دو جداگانہ رنگ کے اداروں کی پیداوار میں فرق فطری ہے، ان کی ترجیحات بھی الگ ہوں گی، وفاداریاں بھی محفوظ رہیں گی، اپنے مرکز کے تئیں تحزب بھی رہے گا، یہ چیزیں قدرتی ہیں، بشری تقاضے کے قبیل سے ہیں، آپ تو ندوہ بہت دور چلے گئے، جہاں نظام، نصاب، تعبیر اور اپروچ کے فروق مسلم ہیں، ذرا گردونواح کا جائزہ لیں، جہاں درج بالا کوئی فرق نہیں؛ لیکن تعصب اور تحزب خوب ہے۔
تبلیغیوں کی انتہا پسندی میں بھی ہمیں یہ تاویل کرنی چاہیے، ان کو عاق کرنا ہماری بے رحمی ہے، تبلیغ اصل ہے، مدارس ثانوی ہیں، مدارس تبلیغ سے چل رہے ہیں، تبلیغ کا دائرہ زیادہ وسیع ہے، مدارس کا فیض محدود ہے— یہ ساری تعبیرات اسی انتہا پسندی کی پیداوار ہیں، اس تبلیغی ہرزہ سرائی کو دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے جاری نزاع کی طرح ہی دیکھنا چاہیے، ان کا بھی ایک ادارہ ہے اور وہ ادارہ بھی ہمارا ہے، اپنے اپنے اداروں کے لیے لڑنے والے تبلیغیوں کو یہ رعایت نہیں دیتے، میرے تین معشوقوں میں ایک تبلیغی جماعت ہے، کچھ کہتا ہوں تو شاگرد بھی معافی یا استثناء نہیں دیتے۔
جس کو جس ادارے سے ایمان، علم اور ہدایت کی دولت ملی ہے وہ اس کے تئیں مخلص بھی ہوگا اور اگر کنوئیں کا مینڈک ہے تو مستخلص بھی ہوگا، ایک مصری مفکر مجھ سے ہندوستانی مسلمانوں کا رپورٹ کارڈ لے رہا تھا، اس نے پوچھا کہ سب سے بڑی تنطیم کون سی ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ جمعیت علمائے ہند، اس پر اس کا فوری رد عمل یہ تھا کہ: "لأنك تنتمي إليها" مجھے تعجب نہیں ہوا، یہ قدرتی تاثر تھا جو اس کے ذہن میں ابھرا۔
دارالعلوم کی احتیاط بہت بڑی مصلحت ہے، ندوۃ العلماء کے توسع میں بھی ایک برکت ہے، تحفظی غیرت کی اپنی اہمیت ہے اور فکری وسعت کی اپنی دریافتیں ہیں، یہ اسمارٹ سنگم ہے، اس کی تاثیر وتسخیر فرق باطلہ سے پوچھو جو دونوں اداروں کو یکساں نشانہ بناتے ہیں اور ہر دو مراکز کے فضلا کو گالیاں دینے میں سانس کا وقفہ نہیں لیتے، غیرت اور شفقت کا اتحاد قیامت خیز ہے، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء یہ قیامت برپا کر چکے ہیں۔
قاسمی بردران! آپ کا محبوب کوتاہ قد کب ہوا کہ آپ دوسرے قد کے درپے ہو گئے؟ شغلِ غیر آداب عشق کے منافی ہے، فاضل دیوبند کو یہ مہلت کہ وہ ایں وآں کے لیے وقت نکالے! مناقبِ دارالعلوم ختم ہو گئے تھے کہ کہیں معائب کی تلاش کا وقت بچ رہا؟ پروانہ یکسو ہوتا ہے، عشق کی شرط انہماک ہے، تعلق کا حسن توحید ہے، مثبت رہو، آپ کے معشوق کی داستانِ عشق دراز ہے، حیات مستعار اس داستان کے لیے کوتاہ ہے، آپ کا رزمیہ مثالی ہے، اس کا زمزمہ بلند ضرور کرو؛ مگر ساز خالص مثبت رہے، دوسرے رزمیے سے تصادم نہ ہو، وہ بھی شاہ نامے ہیں اور وہ لکھنوی شاہنامے بھی ہمارے ہیں۔
ندوی بھائیو!
ناچیز چھیالیسویں بہار کے آغاز کا لمحۂ صفر دیکھ رہا ہے، اس میعاد کا تقریبا نصف دارالعلوم دیوبند میں گذرا، چھ سال طالب علم تھا، دو سال معین مدرس اور پھر پندرہ سال مستقل استاذ کی حیثیت میں، تقریبا ربع صدی کے اس طویل عرصے نے کبھی ندوہ مخالف رجحان کو اپنے شب وروز کا حصہ یا گذرتا لمحہ بنتے نہیں دیکھا، ہمارا احاطہ حضرت مولانا علی میاں ندوی کی ملکی وعالمی فتوحات سے متواتر معطر رہا، دارالعلوم دیوبند اس جشن میں برابر شریک تھا، آپ کی ادبی اور دعوتی خدمات بر صغیر کی درخشاں نمائندگی کے طور پر دیکھی گئیں۔
ندوہ ہمارا ادارہ ہے، ندوی ہمارے بھائی ہیں، اگر کوئی نو آموز فاضلِ لکھنؤ، دیوبند کی تنقیص کرتا ہے تو ہم اعراض کریں گے، کسی اہم شخصیت کی طرف سے تنقید کا ناحق تیر آئے گا تو ہم بشری پہلو دیکھیں گے اور بہ ہر صورت تیر تک محدود رہیں گے، بالفرض ندوے کے بزرگان رفتہ کی کوئی نقل ہمارے دیوبندی جذبات مجروح کرے گی تو ہمارا آپشن وہاں بھی تاویل وتوجیہ سے متجاوز نہیں ہوگا، ندوہ اپنا ہے اور اپن
وں سے سر عام نہیں لڑا جاتا۔

0 تبصرے