65a854e0fbfe1600199c5c82

چھٹی حس



 سنو سنو !!


چھٹی حس


(ناصرالدین مظاہری)


انسان کا جسم بظاہر پانچ حواس کا مجموعہ ہے، مگر اس کی زندگی اکثر ایک ایسے چھٹے احساس کے تابع رہتی ہے جو نہ ہاتھ میں آتا ہے، نہ دلیل میں سماتا ہے، نہ منطق کی گرفت میں آتا ہے۔ یہ دل کی کھڑکی پر ہونے والی وہ خاموش دستک ہے جو اچانک کسی اندھیری راہ میں روشنی جلا دیتی ہے۔


کبھی یہ چپکے سے کہتی ہے:

"ٹھہرو… یہ راستہ بھٹکانے والا ہے۔"


کبھی دبے لہجے میں سرگوشی کرتی ہے:

"ہاں! یہی وہ شخص ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔"


اور کبھی دھیرے سے کان میں پھونک دیتی ہے:

"یہ معاملہ بظاہر سنہرا ہے، مگر باطن میں دھواں۔"


یہی چھٹی حس ہے؛ انسان کا اندرونی خبر رساں، اس کی خاموش آنکھ اور اس کی غیر مرئی عقل۔


انسان کے شعور کی سطح پر لاکھوں مناظر وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں، مگر لاشعور کی گہرائی میں وہ سب ایک روشن گیلری کی طرح محفوظ رہتے ہیں۔ چھٹی حس انہی بھولی بسری تصویروں کو—کبھی کسی خوشبو کی مدد سے، کبھی کسی آواز کے بہانے، کبھی کسی چہرے کی معمولی جنبش سے—اچانک جوڑ دیتی ہے اور چشمِ زدن میں نتیجہ سنا دیتی ہے۔ عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔


ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کو آنکھیں دیکھتی ہیں، حالانکہ کئی بار دل آنکھوں سے پہلے دیکھ لیتا ہے؛

نیتوں کے دھندلے سائے،

ارادوں کے پیچھے چھپی روشنی،

اور تعلقات کے رنگ بدلنے کی ہلکی سی چاپ—

یہ سبک خرام بصیرت دراصل چھٹی حس کا فیض ہے۔


چھٹی حس لفظوں کی محتاج نہیں۔

کسی شخص کے بیٹھنے کا انداز،

آواز میں ایک غیر محسوس ریشمی کپکپاہٹ،

آنکھوں کے کونے میں چھپی بےچینی—

یہ وہ اشارے ہیں جنہیں عقل اکثر نظر انداز کر دیتی ہے، مگر دل خاموشی سے پڑھ لیتا ہے، جیسے کوئی پرانا قاری کتاب کے بین السطور پڑھ رہا ہو۔


ادیب کا وجدان، شاعر کا الہام، اور صوفی کا کشف یہ سب چھٹی حس کے رنگا رنگ جامے ہیں۔


ادب کی دنیا میں چھٹی حس وہ قلم ہے جو لفظ کے پیچھے چلتے ہوئے معنی کی لو پکڑ لیتا ہے۔ اکثر بڑا جملہ سمجھ سے نہیں، بلکہ اس خاموش احساس سے پیدا ہوتا ہے جو اچانک دل میں اتر جاتا ہے۔


چھٹی حس کی غلطیاں بھی اپنے اندر ایک سچ رکھتی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چھٹی حس دھوکہ دے جائے، مگر اس کا دھوکہ بھی انسان کے اندر کا سچ ہوتا ہے—اس کی اپنی خواہش، اس کا اپنا خوف، یا اس کی امید کی ہلکی سی گھنٹی۔


یوں لگتا ہے جیسے دل کہہ رہا ہو:

"میں حقیقت نہ سہی، تمہاری کیفیت ضرور ہوں!"


جس نے اس آواز کو سن لیا، وہ بڑے حادثوں سے بچ گیا؛ اور جو نہ سن سکا، وہ اکثر تاسف، حسرت اور افسوس سے برسرِ پیکار رہا۔


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عام طور پر چھٹی حس سے مراد وہ باطنی احساس یا فوری ادراک ہے جو نہ پانچ ظاہری حواس سے گزرتا ہے، نہ اس کے پیچھے فوری عقلی استدلال نظر آتا ہے، بلکہ اچانک دل میں اتر جانے والی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ یہ اکثر تجربے، مشاہدے، ذہنی تربیت اور لاشعوری تجزیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔


چھٹی حس اور فراست اگرچہ بظاہر قریب المعنی ہیں، مگر حقیقت میں ان کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ چھٹی حس بے حس کے سوا کسی کو بھی ہو سکتی ہے، مگر فراست کے لیے ایمان شرط ہے، تقویٰ لازم ہے، صفائے قلب ضروری اور روحانی بالیدگی ناگزیر۔

 اتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله


یہ قول صاف بتاتا ہے کہ چھٹی حس کسی بھی انسان کی ابتدائی کیفیت ہو سکتی ہے، جب کہ فراست چھٹی حس سے کہیں آگے کی منزل ہے جہاں احساس ادراک بن جاتا ہے اور ادراک بصیرت اور بصیرت صاحبِ بصیرت۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے