65a854e0fbfe1600199c5c82

حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی اذان سے متعلق تین مشہور روایات کی تحقیق!


‼️ حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی اذان سے متعلق تین مشہور روایات کی تحقیق!


عوام میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ تین روایات کافی زیادہ مشہور ہیں کہ:

① حضرت بلال رضی اللہ عنہ شین کو سین پڑھا کرتے تھے، اس لیے اذان میں ’’أَشْہَدُ‘‘ کو ’’أَسْہَدُ‘‘ پڑھتے تھے۔

② ماقبل کی روایت کی بنیاد پر یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ حضور اقدس ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی شکایت کرتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ چوں کہ وہ شین کو سین پڑھتے ہیں جس کے نتیجے میں اذان دینے میں بھی یہ غلطی کرجاتے ہیں، اس لیے آپ انھیں اذان دینے سے منع فرما دیجیے، چنانچہ اس کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع فرمادیا، اگلے دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بجائے کسی اور صحابی نے اذان دی، تو ہوا یوں کہ کافی دیر گزرنے کے باوجود بھی صبح نہیں ہورہی تھی، تو حضور اقدس ﷺ کو اس صورتحال پر حیرانی اور تشویش ہوئی، چنانچہ اسی وقت حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب تک بلال اذان نہیں دیں گے تب تک صبح نہ ہوگی، پھر جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تب جاکر صبح ہوئی۔ یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مشہور ہے۔

③ اسی سے منسلک یہ روایت بھی مشہور ہے کہ: حضرت بلال کی سین اللہ تعالیٰ کے ہاں شین ہے۔


⬅️ تبصرہ:

واضح رہے کہ مذکورہ تینوں روایات بے اصل اور منگھڑت ہیں، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

❶ مستند اور معتمد کتبِ احادیث اور کتبِ سیرت میں ان روایات کا کوئی تذکرہ اور ثبوت نہیں ملتا۔

❷ اذان ایک ایسا عمل ہے کہ جو دن میں پانچ بار سرانجام دیا جاتا ہے، اس لیے اگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان میں شین کو سین پڑھتے تھے تو گویا کہ دن میں پانچ مرتبہ بہت سے حضرات صحابہ کرام اس سے آگاہ ہوتے رہتے اور ان کے علم میں یہ بات آتی رہتی، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو روایت کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد بھی زیادہ ہوتی، جبکہ حال یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے شین کو سین پڑھنے کی بات کو کوئی ایک بھی صحابی روایت نہیں کررہا، ظاہر ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یومیہ طور پر بار بار سامنے آنے والے واقعہ کو کوئی ایک صحابی بھی روایت نہ کرے، بلکہ اس بات کا کوئی ثبوت بھی موجود نہ ہو۔ یہ صورتحال بذاتِ خود اس شین کو سین پڑھنے والی بات کی واضح تردید کرتی ہے۔

❸ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اگر شین کو سین پڑھتے تو یہ غلطی تھی اور ایسی غلطی کے ہوتے ہوئے بھلا حضور اقدس ﷺ انھیں کیسے مؤذن مقرر فرماتے!

❹ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نہایت ہی فصیح وبلیغ اور عمدہ الفاظ وآواز کے حامل تھے، اسی وجہ سے ان کو مؤذن مقرر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شین کو سین پڑھنے کی بات بالکل بھی درست نہیں لگتی۔

❺ اگر واقعتًا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے شین کی بجائے سین ادا ہوتا  اور اس کے باوجود بھی انھیں مؤذن مقرر کردیا گیا ہوتا تو منافقین اس بات کو بھی استہزا اور طعن وملامت کا ذریعہ بنالیتے۔ حالاں کہ ایسی کوئی بات ثابت نہیں۔ 

❻ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے شین کو سین پڑھنے کی بات بالکل ہی بے اصل ثابت ہوئی تو اسی سے ان کے اذان نہ دینے سے صبح نہ ہونے والے واقعہ کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بھی خود ساختہ بات ہے۔ اور اس کے منگھڑت ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بالفرض حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اذان نہ دینے سے صبح نہ ہونے والا واقعہ پیش آتا تو یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوتا اور اس غیر معمولی واقعہ کو دیکھنے اور روایت کرنے والے صحابہ کرام بھی بڑی تعداد میں ہوتے، حالاں کہ یہ واقعہ سرے سے موجود ہی نہیں،اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے، اس لیے اس قدر عظیم اور عمومی واقعہ کوئی ایک صحابی بھی روایت نہ کرے تو ایسا کیسے ممکن ہے! یہ ساری صورتحال بھی اس واقعہ کے بے اصل ہونے کی خبر دیتی ہے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ تینوں روایات منگھڑت اور بے اصل ہیں، اس لیے ان کو بیان کرنا جائز نہیں۔


⬅️ تنبیہ:

حضرت امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان میں شین کو سین سے تبدیل کرکے ’’أَشْہَدُ‘‘ کو ’’أَسْہَدُ‘‘ پڑھتے تھے۔ واضح رہے کہ انھوں نے یہ بات بغیر کسی سند اور حوالے کے محض ’’رُوِیَ‘‘ کے صیغے کے ساتھ ذکر فرمائی ہے، ظاہر ہے کہ محض اس بنیاد پر تو کوئی بات قبول نہیں کی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ امت کے متعدد حضرات اہلِ علم نے ان کی اس بات کی تردید فرماتے ہوئے اس بات کو واضح طور پر بے اصل قرار دیا ہے۔ اور ماقبل میں بھی اس بات کے معتبر نہ ہونے کی وجوہات ذکر ہوچکی ہیں۔ 


📚 محدثین کرام اور اکابرِ امت رحمہم اللہ کی تصریحات کے لیے درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائیں:

☀ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع:

55- حَدِيثُ: «إِنَّ بِلالا كَانَ يُبَدِّلُ الشِّينَ فِي الأَذَانِ سِينًا» لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ. (حرف الهمزة)

☀️الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى:

76- حَدِيثُ: «إِنَّ بِلَالًا كَانَ يُبَدِّلُ الشِّينَ فِي الْأَذَانِ سِينًا» قَالَ الْمِزِّيُّ فِيمَا نَقَلَهُ عَنْهُ الْبُرْهَانُ السِّفَاقُسِيُّ: إِنَّهُ اشْتُهِرَ عَلَى أَلْسِنَةِ الْعَوَامِ وَلَمْ نَرَهُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْكُتُبِ.

☀ تذكرة الموضوعات للفتني الهندي:

في «المقاصد»: «إن بلالا يبدل الشين سينا» قيل: اشتهر على ألسنة العوام ولم نره في شئ من الكتاب «سين بلال عند الله شين» قال ابن كثير: لا أصل له، وقد ترجم غير واحد بأنه كان أندى الصوت حسنه وفصيحه، ولو كان فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها وعابها أهل النفاق. 

☀ كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس:

695- «إن بلالا كان يبدل الشين في الأذان سينا»: قال في «الدرر»: لم يرد في شيء من الكتب، وقال القاري: ليس له أصل، وقال البرهان السفاقسي نقلا عن الإمام المزي: إنه اشتهر على ألسنة العوام، ولم يرد في شيء من الكتب، وسيأتي الكلام عليه بأبسط من هذا في: «سين بلال عند الله شين».

1520- «سين بلال عند الله تعالى شين»: قال ابن كثير: ليس له أصل ولا يصح. وتقدم في: «إن بلالا». لكن قال ابن قدامة في «مغنيه»: روي أن بلالا كان يقول: «أسهد» يجعل الشين سينا. والمعتمد الأول فقد ترجمه غير واحد بأنه كان أندى الصوت حسنه، فصيح الكلام، وقال النبي ﷺ لصاحب رؤيا الآذان عبد الله بن زيد: «ألق عليه -أي على بلال- الأذان فإنه أندى صوتا منك»، ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها، ولَعَابَها أهل النفاق عليه المبالغون في التنقيص لأهل الإسلام. انتهى. وقال العلامة إبراهيم الناجي في «مولده»: وأشهد بالله ولله أن سيدي بلالا ما قال: «أسهد» بالسين المهملة قط كما وقع لموفق الدين بن قدامة في «مغنيه»، وقلده ابن أخيه الشيخ ابن عمر شمس الدين في شرح كتابه «المقنع»، ورد عليه الحفاظ كما بسطته في ذكر مؤذنيه، بل كان بلال من أفصح الناس وأنداهم صوتا.


✍🏻۔۔۔مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

9 صفر المظفّر 1442ھ/ 27 ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے