✨❄ اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح❄✨
سلسلہ نمبر 326:
🌻 نمازِ جنازہ سے پہلے اور اس کے بعد اجتماعی دُعا کا حکم
📿 نمازِ جنازہ سے پہلے اور اس کے بعد اجتماعی دعا کا حکم:
بہت سے علاقوں میں یہ رواج ہے کہ نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور اس دعا کو اس قدر لازم سمجھا جاتا ہے کہ اس میں شریک نہ ہونے والے حضرات کو طعن وملامت کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، گویا کہ انھوں نے دین کا کوئی اہم اور ضروری کام چھوڑ دیا ہو، یا میت کی حق تلفی کردی ہو کہ اس کی مغفرت کی دعا ہی میں شریک نہ ہوئے۔
واضح رہے کہ شریعت کی نظر میں نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کرنا ناجائز، بدعت اور گناہ ہے، اس لیے یہ رسم ترک کرنا واجب ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
📿 پہلی وجہ:
نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کرنا قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، تبع تابعین کرام اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ہرگز ثابت نہیں، اس لیے یہ دین میں اپنی طرف سے اضافہ ہے جس کا بدعت ہونا واضح ہے۔چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی تو وہ مردود (یعنی ناقابلِ قبول اور ناقابلِ اعتبار) ہے۔‘‘
2697- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ».
اس لیے اگر یہ اجتماعی دعا میت کے لیے اس قدر اہم اور مفید ہوتی یا اس کا دین میں کوئی درجہ ہوتا تو یہ خیرُ القُرون یعنی عہدِ نبوی، عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین وتبع تابعین سے ضرور ثابت ہوتی کیوں کہ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ میت کے لیے دعا کی ضرورت تو ان زمانوں میں بھی تھی، تو ضرورت ہونے اور اسباب پائے جانے کے باوجود بھی انھوں نے میت کے لیے اس اجتماعی دعا کا اہتمام نہیں کیا، اس لیے آج اس دعا کا اہتمام کرنا ناجائز اور بدعت ہی کہلائے گا، جیسا کہ بدعت کی تعریف سے واضح ہے۔
چنانچہ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ بدعت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اصل لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں، خواہ عبادات سے متعلق ہو یا عادات سے، اور اصطلاحِ شرع میں ہر ایسے نو ایجاد طریقۂ عبادت کو بدعت کہتے ہیں جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد اختیار کیا گیا ہو، اور آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے عہدِ مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولًا ثابت ہو نہ فعلًا، نہ صراحتًا نہ اشارتًا۔ بدعت کی یہ تعریف علامہ برکوی کی کتاب ’’الطریقۃ المحمدیۃ‘‘ اور علامہ شاطبی کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ سے لی گئی ہے۔‘‘ (جواہر الفقہ)
اسی کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فقہی کتب میں بھی اس اجتماعی دعا کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا، گویا کہ یہ بعد کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔
📿 دوسری وجہ:
نمازِ جنازہ بذاتِ خود میت کے لیے دعا ہے، جس کو شریعت نے میت کے لیے مقرر فرمایا ہے، اس لیے نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا ایک بے معنیٰ رسم ٹھہرتا ہے، اس لیے صرف اسی طریقے پر اکتفا کرنا چاہیے جو کہ شریعت میں مقرر ہے کیوں کہ وہ ہر اعتبار سے کافی ہے، اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
📿 تیسری وجہ:
نمازِ جنازہ بذاتِ خود میت کے لیے ایک طرح سے اجتماعی دعا ہے، جس کو شریعت نے میت کے لیے اجتماعی طور پر مقرر فرمایا ہے کہ عمومًا کئی مسلمان مل کر میت کی مغفرت کی سفارش اور دعا کرتے ہیں، اس لیے نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کرنے کا یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ ہمیں نمازِ جنازہ کی صورت میں شریعت کی مقرر کردہ اجتماعی دعا پر اطمینان نہیں یا اس میں کوئی نقص اور کمی ہے، اس لیے اپنی طرف سے نمازِ جنازہ سے پہلے یا بعد میں اجتماعی دعا کا اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ میت کی مغفرت سے متعلق اطمینان نصیب ہو اور جو کچھ کمی ہے وہ پوری ہوجائے!! معاذ اللہ۔
اسی طرح اس اجتماعی دعا سے یہ تأثُّر بھی سامنے آتا ہے کہ شریعت نے میت کے لیے جو دعا مقرر فرمائی ہے اس کی اہمیت کم ہے، تبھی تو ہمیں اس سے پہلے یا بعد میں ایک اور اجتماعی دعا ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، کیوں کہ اگر نمازِ جنازہ کی دعا کو ہم کافی اور اہم سمجھتے تو اس سے پہلے اور اس کے بعد اپنی طرف سے ہرگز کوئی دعا ایجاد نہ کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ کیسی بے عقلی اور ناسمجھی کی باتیں ہیں، اس لیے صرف اسی اجتماعی دعا پر اکتفا کرنا چاہیے جو کہ شریعت میں نمازِ جنازہ کے طور پر مقرر ہے۔
📿 چوتھی وجہ:
نمازِ جنازہ کی صورت میں شریعت نے جو اجتماعی دعا مقرر فرمائی ہے وہ ہمارے خود ساختہ طریقوں سے ہر اعتبار سے افضل اور کافی ہے کہ ہم جتنی بھی کوشش کرلیں ایسی یا اس سے بہتر دعا اور طریقہ ایجاد نہیں کرسکتے، اس لیے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد اجتماعی دعا کا نیا طریقہ ایجاد کرنا بے معنیٰ ٹھہرتا ہے، اس لیے ہمیں ایسی خود ساختہ باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے شریعت کی مقرر کردہ دعا پر اطمینان اور اکتفا کرنا چاہیے۔
☀ مرقاۃ المفاتیح کا حوالہ:
مشکاۃ المصابیح کی مشہور شرح مرقاۃ المفاتیح میں نمازِ جنازہ کے بعد دعا سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ذکر فرمائی ہے کہ یہ دعا نمازِ جنازہ میں اضافے اور زیادتی کے مشابہ ہے۔
وَلَا يَدْعُو لِلْمَيِّتِ بَعْدَ صَلَاةِ الْجَنَازَةِ؛ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ الزِّيَادَةَ فِي صَلَاةِ الْجَنَازَةِ.
(المشي بالجنازة والصلاة عليها)
فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے امام فقیہ اور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی نمازِ جنازہ سے پہلے اور اس کے بعد اجتماعی دعا کی ممانعت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔
اس مسئلہ کی تفصیل ووضاحت کے لیے مشہور کتاب ’’احکامِ میت‘‘ کا مطالعہ بھی مفید ہے۔
ماقبل کی تفصیل سے نمازِ جنازہ سے پہلے اور اس کے بعد اجتماعی دعا کا ناجائز اور بدعت ہونا واضح ہوچکا، ذیل میں اس کی مذمت سے متعلق چند اہم نکات ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ مزید واضح ہوسکے۔
📿 حق کا معیار: سنّت اور صحابہ کرام:
سنن الترمذی کی حدیث ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹے تھے، جبکہ میری امت میں 73 فرقے بنیں گے، ان میں ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! وہ ایک کامیاب اور برحق جماعت کون سی ہوگی؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘ یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگی۔‘‘
2641- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي».
اس حدیث میں حق جماعت کی جو علامت بیان فرمائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ جو سنت اور صحابہ کرام کے طریقے پر ہو، یہ علامت دین کے ہر معاملے میں ایک واضح پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ہر ایک انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے نظریات اور اعمال جانچ سکتا ہے۔ یقینًا یہ معیار اپنانے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور بہت سی پریشانیوں، بدعات اور خود ساختہ اعمال اور نظریات سے نجات مل سکتی ہے!!
📿 سنت اور صحابہ کرام سے وابستگی سے متعلق چند روایات:
سنت اور صحابہ کرام کے معیار کو مضبوطی سے تھامنےکی اشد ضرورت ہے۔ ذیل میں سنت اور صحابہ سے متعلق چند روایات ذکر کی جاتی ہیں جن سے یہ بات بخوبی واضح ہوسکے گی:
1⃣ سنن الترمذی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ، تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں کہ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ، لیکن اس طرح ہمیں حضور اقدسﷺ نے نہیں سکھایا بلکہ ہمیں یوں سکھایا ہے کہ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلىٰ كُلِّ حَالٍ.
2738- عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ، عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ: « اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلىٰ كُلِّ حَالٍ». (بَابُ مَا يَقُولُ العَاطِسُ إِذَا عَطَسَ)
غور کیجیے کہ چھینکنے والے شخص نے چھینک کے بعد الحمدللہ تو کہا لیکن ساتھ میں حضور اقدس ﷺ پر سلام بھی بھیج دیا، حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ چھینک کے بعد کی دعا میں الحمد للہ کے بعد درود وسلام پڑھنا سنت سے ثابت نہیں، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے عاشقِ سنت صحابی نے فورًا تنبیہ فرمائی کہ میں بھی اس کا قائل ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بھی ہونی چاہیے اور حضور اقدس ﷺ پر درود وسلام بھی پڑھنا چاہیے یعنی کہ درود وسلام کی اہمیت وفضیلت کا میں بھی قائل ہوں لیکن یہ اس کا موقع نہیں، اس لیے چھینک کے بعد درود وسلام پڑھنا درست نہیں کیوں کہ ہمیں حضور اقدس ﷺ نے چھینک کے بعد الحمدللہ ہی سکھایا ہے جس میں درود وسلام کا ذکر نہیں۔
اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ چھینک کے بعد کی دعا میں الحمدللہ کے بعد درود وسلام سنت سے ثابت نہ تھا اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے پسند نہیں فرمایا اور تنبیہ فرمائی، گویا کہ درود شریف پڑھنا بہت بڑا عمل ہے لیکن اس کے لیے ایسا موقع اور طریقہ ایجاد کرنا جو سنت اور صحابہ سے ثابت نہ ہو اسے بدعت ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی نمازِ جنازہ سے پہلے یا اس کے بعد اجتماعی دعا کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
2️⃣ حضرت امام شاطبی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’جو عبادت حضرات صحابہ کرام نے نہیں کی وہ عبادت نہ کرو، کیوں کہ پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی (جس کو یہ پورا کریں)، خدا تعالیٰ سے ڈرو اور پہلے لوگوں کے طریقے کو اختیار کرو۔ اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔
(جواہر الفقہ)
وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَالَ حُذَيْفَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: كُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ يَتَعَبَّدْهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَا تعبَّدوها؛ فَإِنَّ الْأَوَّلَ لَمْ يَدَعْ لِلْآخِرِ مَقَالًا، فَاتَّقُوا اللهَ يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، وَخُذُوا بِطَرِيقِ مَنْ كَانَ قبلكم. ونحوه لابن مسعود أيضًا. (الباب الثامن في الفرق بين البدع والمصالح المرسلة)
☀ البدع لابن وضاح القرطبي:
10- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَوْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: اتَّقُوا اللهَ يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، خُذُوا طَرِيقَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَاللهِ لَئِنِ اسْتَقَمْتُمْ لَقَدْ سُبِقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، وَلَئِنْ تَرَكْتُمُوهُ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا. (بَابُ مَا يَكُونُ بِدْعَةً)
3⃣ حضرت امام شاطبی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الاعتصام‘‘ بمیں فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: تم ہماری پیروی کرو اور دین میں نئی باتیں ایجاد نہ کرو، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔
وَخَرَّجَ [ابْنِ وَضَّاحٍ] أَيْضًا عَنْ عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: اتَّبِعُوا آثَارَنَا وَلَا تَبْتَدِعُوا فَقَدْ كُفِيتُمْ.
☀ البدع لابن وضاح القرطبي:
11 - حَدَّثَنَا أَسَدٌ قَالَ: أخبرنا أَبُو هِلَالٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: اتَّبِعُوا آثَارَنَا، وَلَا تَبْتَدِعُوا، فَقَدْ كُفِيتُمْ. (بَابُ مَا يَكُونُ بِدْعَةً)
☀ مجمع الزوائد:
853- عن عبد الله بن مسعود قال: اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم.
رواه الطبراني في الكبير، ورجاله رجال الصحيح.
🌹 خلاصہ:
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ نمازِ جنازہ سے پہلے اور نمازِ جنازہ کے بعد میت کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کرنا قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، تبع تابعین کرام اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ہرگز ثابت نہیں، اس لیے اس کا بدعت ہونا واضح ہے، اور بدعت اسی قابل ہوتی ہے کہ اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے اجتناب کیا جائے!
📿 دین اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں کب برقرار رہ سکتا ہے؟
دین اپنی حقیقی شکل وصورت میں تبھی برقرار رہ سکتا ہے جب اس کے لیے سنت اور صحابہ کو معیار قرار دیا جائے کیوں کہ اگر ہر ایک اپنی طرف سے دین کے نام پر کوئی عمل ایجاد کرے گا یا اپنے کسی خود ساختہ عمل کو شریعت پر عمل پیرا ہونے کا معیار قرار دے گا تو دین کا حلیہ ہی مسخ ہوجائے گا اور دین اپنی اصلی صورت میں باقی نہیں رہ پائے گا، اور نہ ہی بعد والوں کو حقیقی دین پہنچ سکے گا، حالاں کہ خود ساختہ اعمال اور پیمانوں کا تو نام دین نہیں۔ اس لیے دین کے معاملے میں سنت اور صحابہ کرام کو معیار قرار دینے کی ایک بڑی ضرورت یہ بھی ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
16 ذو الحجہ1441ھ/ 7 اگست 2020

0 تبصرے