سنو سنو !!
حرمِ شریف میں خودکشی
(ناصرالدین مظاہری)
25 دسمبر 2025 کو مسجد حرام میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب ایک شخص نے بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی۔ اس موقع پر وہاں موجود ایک سیکیورٹی اہلکار نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اسے اپنے اوپر روک لیا، جس کے نتیجے میں وہ خود شدید زخمی ہوگیا۔
یہ سیکیورٹی اہلکار انسانیت، فرض شناسی اور ایثار کی ایک روشن مثال بن گیا، جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک انسانی جان بچانے کی کوشش کی۔ ایسے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اگرچہ مسجد حرام میں اس نوعیت کے واقعات نہایت کم اور نادر ہیں، تاہم ماضی میں بھی کبھی کبھار ایسے افسوسناک واقعات پیش آچکے ہیں۔ 2017ء میں ایک شخص مسجد حرام کی چھت یا کسی بلند مقام سے کودا اور بعد میں ہلاک ہوگیا۔ اسی طرح 2018ء اور دیگر برسوں میں بھی چند ایسے واقعات سامنے آئے جن میں بعض افراد نے بالائی سطح سے چھلانگ لگائی؛ بعض مواقع پر سیکیورٹی اہلکاروں نے بروقت مداخلت کی، جبکہ بعض واقعات میں افراد شدید زخمی یا جاں بحق ہوگئے۔ 2024ء میں رمضان المبارک کے دوران بھی ایک شخص نے بالائی منزل سے خود کو نیچے پھینکنے کی کوشش کی، جس کے بعد اسے فوری طبی امداد فراہم کی گئی۔
اسلام خودکشی کو سختی کے ساتھ حرام قرار دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک سنگین گناہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی کی حرمت کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم امانت ہے، جس کی حفاظت ہر حال میں لازم ہے۔
اسی حقیقت کو قرآنِ کریم میں واضح الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (بقرہ)
اور اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔
یہ آیتِ کریمہ صاف طور پر اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ انسان کو اپنی جان کو نقصان پہنچانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں، خواہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کے بارے میں نہایت سخت انداز میں تنبیہ فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم:
كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ سِكِّينًا فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ، قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ، حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ
(صحیح البخاری)
تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جسے زخم لگا، وہ بے چین ہوگیا، اس نے چاقو لیا اور اپنا ہاتھ کاٹ لیا، خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے جلدبازی کرکے اپنی جان خود لے لی، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔
اسی طرح ایک دوسری نہایت سخت وعید والی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فِيهَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا (بخاری، مسلم)
جو شخص پہاڑ سے کود کر اپنی جان لے لے، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح گرتا رہے گا، اور جو زہر پی کر خود کو ہلاک کرے، تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا، جسے وہ جہنم میں پیتا رہے گا، ہمیشہ ہمیشہ۔
یہ احادیثِ مبارکہ خودکشی کی سنگینی اور اس کے ہولناک انجام کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں، تاکہ مسلمان زندگی کی قدر و قیمت کو سمجھے اور آزمائش، مایوسی اور ذہنی دباؤ کے وقت صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑے۔
خودکشی کرنے والے کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے فعل کا ارتکاب کر رہا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ مزید برآں، اگر کوئی شخص بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر کودنے، خود کو آگ لگانے یا کسی اور خودکش طریقے کو اختیار کرتا ہے تو اس سے دوسرے بے گناہ افراد کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں، جو شرعاً قتلِ ناحق کے زمرے میں آتا ہے، اور کسی بے قصور انسان کو قتل کرنا اسلام میں سخت حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، ہمیں صبر، عقل، امید اور ایمان کی دولت عطا فرمائے، اور ہر قسم کی مایوسی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(چھ رجب المرجب چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے