65a854e0fbfe1600199c5c82

پانچ غیر ثابت روایات



📿 پانچ غیر ثابت روایات:

امت میں کئی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی پانچ غیر ثابت روایات ملاحظہ فرمائیں:


روایت 1️⃣:

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ کا درِ رحمت جوش میں تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: عائشہ! جو مانگنا ہے مانگ لو، تمہیں ضرور عطا کروں گا۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں مشورہ لے لوں۔ چنانچہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اجازت ملی تو وہ اپنے والد گرامی کے پاس تشریف لے گئیں اور یہ ساری صورتحال عرض کردی اور پوچھا کہ اس موقع پر کیا چیز مانگوں؟ اس بارے میں مشورہ دیجیے تاکہ اہم چیز مانگ سکوں۔ تو ان کے والد گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: بیٹی! حضور اقدس ﷺ سے جاکر یہ مانگو کہ معراج کی رات خلوت میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو راز کی باتیں کی تھیں ان میں سے کوئی ایک بات بتا دیجیے، اور پھر آکر وہ بات مجھے بھی بتا دینا۔ چنانچہ حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا واپس حضور اقدس ﷺ کے پاس تشریف لائیں اور یہ سوال پوچھا، تو حضور اقدس ﷺ اس پر مسکرائے اور فرمایا کہ: اُن راز کی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ: محبوب! آپ کی امت میں سے جب کوئی شخص کسی کا ٹوٹا ہوا دل جوڑ دے تو میں نے اپنے آپ پر یہ لازم کیا ہے کہ اس کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کردوں گا۔ اس پر امی عائشہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور جاکر اپنے والد گرامی کو بھی یہ بات بتائی۔ یہ سن کر ان کے والد گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہم کسی کا ٹوٹا ہوا دل جوڑ دیتے ہیں تو اس پر ہمیں جنت نصیب ہوجائے گی۔ تو ان کے والد گرامی نے فرمایا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھو کہ جب ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے پہ جنت کا وعدہ ہے تو اگر کوئی شخص کسی کا دل توڑ دے تو اس کے لیے تو جہنم کی وعید ہوگی، یہی تو رونے کی بات ہے کہ کہیں ہم سے کسی کا دل نہ ٹوٹے۔ 

 

▪️حکم:

 واقعہ معراج کے جو حالات اور واقعات معتبر احادیث اور معتبر کتب سے ثابت ہیں اُن میں یہ بات کہیں مذکور نہیں، گویا کہ یہ روایت ثابت نہیں۔ اس لیے اس کو حدیث سمجھنے اور آگے بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔   


روایت 2️⃣:

 جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: جاؤ جاکر اپنے والد کی مدد کرو۔ لیکن جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: جاؤ، تمہارے والد کی ہم خود مدد کریں گے۔

 

▪️ حکم:

 ایسی کوئی روایت ثابت نہیں۔


روایت 3️⃣:

 انگوٹھی کے ساتھ ایک نماز ادا کرنا بغیر انگوٹھی کے ستر نمازوں کے برابر ہے۔

  

▪️ حکم:

 حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منگھڑت قرار دیا ہے۔

المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

176- حَدِيثُ: «صَلَاةٌ بِخَاتَمٍ تَعْدِلُ سَبْعِينَ صَلَاةٍ بِغَيْرِ خَاتَمٍ» مَوْضُوعٌ كَمَا قَالَهُ الْعَسْقَلانِيُّ .


روایت 4️⃣:

 ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ‘‘ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔

 

▪️حکم:

 متعدد محدثین کرام کے نزدیک اس روایت کی کوئی اصل نہیں، یعنی مذکورہ الفاظ حدیث کے نہیں۔ اس لیے اسے حضور اقدس ﷺ کی طرف منسوب کرکے یا حدیث کہہ کر بیان کرنا ہرگز درست نہیں۔ البتہ جہاں تک اپنے وطن کے ساتھ تعلق اور محبت کی بات ہے تو اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، یہاں صرف مذکورہ الفاظ کی حقیقت ذکر کرنا مقصود ہے۔

المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

106- حَدِيثُ: «حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ» لَا أَصْلَ لَهُ عِنْدَ الْحُفَّاظ.


روایت 5️⃣:

 اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کہے بغیر اس کے پیر دبائے تو اسے سونا صدقہ کرنے کا اجر ملتا ہے، اور اگر وہ اپنے خاوند کے کہنے پر اس کے پیر دبائے تو اسے چاندی صدقہ کرنے کا اجر ملتا ہے۔

 

▪️حکم:

 متعدد صحیح احادیث کی رو سے شوہر کی خدمت اور اطاعت کرنا بڑی ہی فضیلت اور اہمیت کی بات ہے، البتہ مذکورہ روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔


⬅️ خلاصہ:

مذکورہ پانچ روایات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 


📿 احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:

1️⃣ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: « ... وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، کیوں کہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے کوئی حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


📿 غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی ٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس نامناسب عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور اصولًا انھی حضرات سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالے کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


📿 ایک اہم نکتہ:

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

9 صفر المظفّر 1443ھ/ 17 ستمبر 2021


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے