65a854e0fbfe1600199c5c82

حلالہ شرعی

 حلالہ شرعی


🖋️عبداللہ ممتاز

 مذہب اسلام میں نکاح ایک "عقد" ہے، ا س میں سات جنم ساتھ جینے مرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے، جس کے لیے کسی "لیو ان ریلیشن شپ" میں آکر ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کی ضرورت ہو، بلکہ نکاح بذات خود ایک "لیو ان ریلیشن شپ" ہے، ہاں اس میں جب تک دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، دونوں کے ایک دوسرے سے حقوق متعلق ہیں۔ جب دونوں کے درمیان معاملہ ٹھیک نہ رہے، اللہ کے حقوق کی پاس داری مشکل ہوجائے، دونوں بلا کسی کیس مقدمہ کے آپسی رضامندی سے الگ ہوسکتے ہیں؛ البتہ اس علیحدگی کا بھی شریعت نے ایک طریقہ بتایا ہے۔

 ایک لڑکا اور لڑکی جب ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہوں تو دونوں کے درمیان سو فیصد مزاجی ہم آہنگی ہواور دونوں ایک ہی جیسا سوچے،  یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کبھی کبھار آدمی جذبات میں جدائی کا فیصلہ کرتا ہے؛ لیکن اسے جلد سمجھ آجاتی ہے کہ یہ فیصلہ غلط تھا۔ اس لیے شریعت نے پہلی طلاق کے بعد اپنے فیصلے پر نظر ثانی (Review)کرنے اور فیصلہ واپس لینے (جعت) کا اختیار دیا۔ اس کے لیے ایک خاص مدت (Period of time) یعنی تقریبا ایک ماہ کا وقت مقرر کیا۔اگر وہ اس دوران اپنے فیصلے پر باقی رہااور نظر ثانی (ریویو) کی مدت گزر گئی تو دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوگیا، اب وہ دونوں میاں بیوی نہیں رہے؛ لیکن اب بھی اس کے اپنے فیصلۂ طلاق کو واپس لینے کا موقع ہے؛ چوں کہ اس نےایک ماہ تک اپنی بیوی کو کش مکش میں ڈالےرکھا، اس لیے اب اسے کچھ مالی نقصان اٹھانا پڑے گا، اس طور پر کہ اب وہ اس سے اس کی رضامندی اور نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے اور حسب سابق میاں بیوی بن کر رہ سکتےہیں۔ شریعت میں طلاق تو بس دو ہی ہیں۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ. فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَـانٍ .(البقرۃ/229)  تیسری طلاق کی مثال ایسی ہے جیسے جج کسی کو سزائے موت سنا کر قلم توڑ دیتا ہےکہ اب کسی قسم کی کوئی شنوائی  نہیں ہوگی۔اب   فیصلہ واپس لینے کا اختیار خود اس کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔

 تین طلاقیں دینا، یعنی اپنے دست وبازو خود کاٹ لینا ہے؛ خواہ یہ تینوں طلاقیں یک بارگی دی ہو یا تین الگ الگ حیض (مہینوں) میں۔تیسری طلاق سے، دوسری طلاق پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ اب ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا بالکل ممکن نہیں رہا اورقلم توڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کی مہلت لینے کو بھی آمادہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کی  بیوی ہمیشہ کےلیے اس سے جدا ہوجاتی ہے، اب اسے "واپس لانے "کا کوئی "طریقہ "باقی نہیں رہتا۔

اب اگر وہ خاتون دوسری شادی کرتی ہے،اتفاق سے اس خاتون کا دوسرا شوہر انتقال ہوجاتا ہے یا ان سے بھی تعلقات خوش گوار نہیں رہتا، جس کی وجہ سے دوسرے شوپرنے طلاق دے دی یا عورت نے خلع حاصل کرلیا۔ اب شریعت   شوہر اول کےلیے گنجائش دیتی ہے کہ اس سے شادی "حلال" ہے۔ یعنی وہ خاتون اب جس سے چاہے اس سے شادی کرسکتی ہے؛ خواہ وہ اس کا شوہر اول ہی کیوں نہ ہو۔

 دوسرے مرد سے شادی اور پھر طلاق کےنتیجہ میں وہ شوہر اول کے لیے "حلال "ہوئی ہے، ا سی" نتیجہ کا نام حلالہ" ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ. فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ (البقرۃ/130)

 تین طلاق کے بعد جب اس نے واپسی کے سارے دروازے بند کرلیے تھے، پھر پلاننگ کے ساتھ اس عورت کا کسی دوسرے مرد سےاس شرط کے ساتھ شادی کرائےکہ وہ بھی اسے طلاق دے دے گا، دوسرا  مرد اس کے ساتھ شب باشی کرے اور پھر اگلے دن طلاق دے دےتاکہ اس عورت کا شوہر اول اس سے دوبارہ نکاح کرسکے۔ یہ سخت حرام اور بے غیرتی کی بات ہے، رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔قال رسول اللہ ﷺ :  لَعَنَ اللهُ المُحَلِّل، والمُحَلَّلَ له  (ابوداود)

 حلالہ "نتیجہ کا نام ہے، طریقہ کا نہیں"،" رزلٹ کا نام ہے، پروسیس کا نہیں"۔ اس لیے جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے، اسے حلالہ کا راستہ دکھانا اور حلالہ کا طریقہ بتانا، انتہائی مذموم عمل اور مقصد قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن نے تین طلاق کے بعد بیوی کی واپسی کا دروازہ بند کردیا تھا، اس کے باوجود حلالہ کا طریقہ بتاکر بیوی کی واپسی کا حیلہ بتانا کیسے درست ہوسکتا ہے!؟ اس کی وجہ سے تین طلاق کی جو سنگینی تھی وہ عوام کے ذہن سے ختم ہوگئی، دوسری طرف "حلالہ ایک کاروبار" بن گیا۔ کئی ایمان فروش نام نہاد مولوی اور مفتی اس میں ملوث ہیں، شنید کے مطابق حلالہ سینٹر بنے ہوے ہیں۔  اس پر کئی اسٹنگ آپریشن بھی ہوچکے ہیں۔

 ایک مستفتی دریافت کر رہا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو "تین طلاق" کہہ دیا ہے، مسئلہ بتادیں۔ پھر ایسی کون سی قیامت آجاتی ہے کہ جواب میں وقوع طلاق کے حکم کے ساتھ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ  "دوبارہ نکاح کرنے کے لیے حلالہ شرعی کرنا ہوگا" اور پھر نام نہاد"حلالہ شرعی "کا پروسیس (طریقہ) بھی تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ 

  میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ دارالافتاء کے بیشتر سوالات میں بیوی حلال کرنے کے طریقے پوچھے بھی نہیں جاتے؛ لیکن مفتی صاحب"حلالہ شرعی" کا طریقہ complimentary ضرور بتاتے  ہیں۔ یقینا طلاق سے بڑی پریشانیاں آتی ہیں۔ گھر ٹوٹ جاتا ہے، بچے پریشان ہوتے ہیں۔ سارے مسائل ہیں؛ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ "ناجائز راستوں" سے ان کے اس گھر کی دیوار کھڑی کی جائے جس کی پروا خود اس نے نہیں کی ہے۔ عورت پر بھی بڑے سنگین حالات آتے ہیں؛ لیکن ایسی بے غیرتی کے راستے اس بے غیرت مرد کے پاس اسے لوٹانے کا کیا مطلب ہے؟ آخر مرد مر بھی تو جاتے ہیں۔ اس بے غیرتی کی راہ دکھانے کے بجائے یہ کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ وہ مرد تمھارے لیے مر چکا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے