65a854e0fbfe1600199c5c82

استنجا میں مبالغہ کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم:

 


✨❄ اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح❄✨


سلسلہ نمبر 588:

🌻 استنجا میں مبالغہ کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم


📿 استنجا میں مبالغہ کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم:

عوام میں مشہور ہے کہ روزے کی حالت میں استنجا کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے، ورنہ تو روزہ ٹوٹنے کا خدشہ ہے، اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ پانی سے استنجا کرنے کے بعد پانی خشک کرلینا چاہیے، اس سے بھی روزہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے، یوں متعدد باتیں عام ہوچکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اس عموم اور اِطلاق کے ساتھ غلط فہمی پر مبنی ہیں، کیوں کہ درست مسئلہ یہ ہے کہ عام انداز میں استنجا کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا، اسی طرح اگراستنجا کرنے میں کچھ معمولی بے احتیاطی یعنی کچھ مبالغہ ہو بھی جائے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح اگر پانی سے استنجا کرنے کے بعد اس کا پانی خشک نہ کیا جائے تب بھی روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ استنجا میں مبالغہ کرتے ہوئے روزہ ٹوٹنے کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ پانی کی تری مقعد یعنی بڑی پیشاب گاہ کے راستے سے اندر مقامِ حُقنہ تک پہنچ جائے، تب جاکر روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور ماہرین کے مطابق یہ مقامِ حقنہ مقعد سے تقریبًا چار یا پانچ انگلی یعنی ایک مشت یا اس سے کچھ اوپر ہوتا ہے جہاں بعض امراض میں آنتوں تک دوا پہنچائی جاتی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں عام انداز میں یا کچھ معمولی سے مبالغے کے ساتھ استنجا کرنے کی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا کیوں کہ ان صورتوں میں مقامِ حُقنہ تک پانی کی تری نہیں پہنچ پاتی، اس لیے مطمئن رہنا چاہیے، البتہ اگر استنجا کرنے میں اس قدر زیادہ مبالغہ نہیں کرنا چاہیے کہ مقامِ حقنہ تک پانی پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوجائے کیوں کہ اس سے روزہ ٹوٹنے کا امکان بڑھ جاتا ہے، جس کی تفصیل ماقبل میں ذکر ہوچکی۔

اس طرح اگر عام انداز سے استنجا کرنے کے بعد بالفرض مقعد میں موجود پانی کی تری خود بخود مقامِ حقنہ تک پہنچ جائے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے کیوں کہ یہ حرج کی وجہ سے معاف ہے، جیسا کہ وضو میں کلی کرنے کے بعد ایک دو بار تھوک دینا کافی ہوتا ہے، اس کے بعد منہ میں رہ جانے والی تری حلق سے اُترنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (ماہِ رمضان کے فضائل واحکام از حضڑت مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)


الدر المختار:

(أَوْ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ الْيَابِسَةَ فِيهِ) أَيْ دُبُرِهِ أَوْ فَرْجِهَا وَلَوْ مُبْتَلَّةً فَسَدَ، وَلَوْ أَدْخَلَتْ قُطْنَةً إنْ غَابَتْ فَسَدَ، وَإِنْ بَقِيَ طَرَفُهَا فِي فَرْجِهَا الْخَارِجِ لَا. وَلَوْ بَالَغَ فِي الِاسْتِنْجَاءِ حَتَّى بَلَغَ مَوْضِعَ الْحُقْنَةِ فَسَدَ وَهَذَا قَلَّمَا يَكُونُ، وَلَوْ كَانَ فَيُورِثُ دَاءً عَظِيمًا. 

☀ رد المحتار:

(قَوْلُهُ: أَيْ دُبُرِهِ أَوْ فَرْجِهَا) أَشَارَ إلَى أَنَّ تَذْكِيرَ الضَّمِيرِ الْعَائِدِ إلَى الْمُقْعَدَةِ؛ لِكَوْنِهَا فِي مَعْنَى الدُّبُرِ وَنَحْوِهِ، وَإِلَى أَنَّ فَاعِلَ أَدْخَلَ ضَمِيرٌ عَائِدٌ عَلَى الشَّخْصِ الصَّائِمِ الصَّادِقِ بِالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى. (قَوْلُهُ: وَلَوْ مُبْتَلَّةً فَسَدَ)؛ لِبَقَاءِ شَيْءٍ مِنْ الْبِلَّةِ فِي الدَّاخِلِ، وَهَذَا لَوْ أَدْخَلَ الْأُصْبُعَ إلَى مَوْضِعِ الْمِحْقَنَةِ كَمَا يُعْلَمُ مِمَّا بَعْدَهُ. قَالَ ط: وَمَحَلُّهُ إذَا كَانَ ذَاكِرًا لِلصَّوْمِ، وَإِلَّا فَلَا فَسَادَ كَمَا فِي «الْهِنْدِيَّةِ» عَن «الزَّاهِدِيِّ» اهـ . وَفِي «الْفَتْحِ»: خَرَجَ سُرْمُهُ فَغَسَلَهُ، فَإِنْ قَامَ قَبْلَ أَنْ يُنَشِّفَهُ فَسَدَ صَوْمُهُ، وَإِلَّا فَلَا؛ لِأَنَّ الْمَاءَ اتَّصَلَ بِظَاهِرِهِ ثُمَّ زَالَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إلَى الْبَاطِنِ بِعَوْدِ الْمُقْعَدَةِ. (قَوْلُهُ: حَتَّى بَلَغَ مَوْضِعَ الْحُقْنَةِ) هِيَ دَوَاءٌ يُجْعَلُ فِي خَرِيطَةٍ مِنْ أُدُمٍ يُقَالُ لَهَا: الْمِحْقَنَةُ، «مُغْرِبٌ». ثُمَّ فِي بَعْضِ النُّسَخِ: الْمِحْقَنَةُ بِالْمِيمِ، وَهِيَ أَوْلَى. قَالَ فِي «الْفَتْحِ»: وَالْحَدُّ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِالْوُصُولِ إلَيْهِ الْفَسَادُ قَدْرُ الْمِحْقَنَةِ اهـ. أَيْ قَدْرُ مَا يَصِلُ إلَيْهِ رَأْسُ الْمِحْقَنَةِ الَّتِي هِيَ آلَةُ الِاحْتِقَانِ، وَعَلَى الْأَوَّلِ فَالْمُرَادُ الْمَوْضِعُ الَّذِي يَنْصَبُّ مِنْهُ الدَّوَاءُ إلَى الْأَمْعَاءِ. (بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَمَا لَا يُفْسِدُهُ)


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

13 رمضان المبارک 1442ھ/ 26 اپریل2021


=====================

فتویٰ دار العلوم دیوبند 


================


فتوی بنوری ٹاؤن کراچی 

كيا روزے کی حالت میں استنجا کرتے وقت سانس لینے میں احتیاط کرنی چاہیے؟

سوال

میں نے سنا ہے کہ روزے کی حالت میں استنجا کرتے وقت سانس لینے میں احتیاط کرنی چاہیے، یعنی زور سے سانس نہیں لینا چاہیے ، کیوں کہ ایسا کرنے سے دبر میں پانی داخل ہو سکتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟ اور کیا ایسی صورت میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے ؟


جواب

روزے کی حالت میں استنجا میں کرتے وقت سانس لینے میں احتیاط کی ضرورت نہیں، البتہ استنجا میں مبالغہ نہیں کرنا چاہیے، استنجا میں مبالغہ (پچھلی شرم گاہ کے اندر تک پانی پہنچانا) ممنوع ہے،اگر استنجا میں مبالغہ کرنے سے پانی موضعِ حقنہ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم ہوگی ، کفارہ نہیں۔


محیط برہانی میں ہے:


"وإذا استنجى، وبالغ حتى وصل الماء إلى موضع الحقنة يفسد صومه، ومن غير كفارة".


(المحيط البرهاني: كتاب الصوم ، الفصل الرابع فيما يفسد الصوم وما لا يفسد صومه (2/ 383)،ط. دار الكتب العلمية، بيروت ، الطبعة: الأولى، 1424 هـ - 2004 م)


فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201154


دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے