سنو سنو
نماز کے بعد بیٹھے رہنے کی فضیلت
(ناصرالدین مظاہری)
21/شوال المکرم 1444ھ
سردی ہو یا گرمی جاڑے ہوں یا برسات، گھر میں مہمانوں کی ریل پیل ہو، کسی خاص تقریب کی دھکم پیل ہو، بھوک سے معدہ بے قرار ہو یا کوئی ملاقاتی برائے ملاقات حاضر و منتظر ہو،میں نے اپنے اباجی مرحوم کی یہ عادت ہمیشہ دیکھی کہ وہ نماز فجر کے بعد تلاوت اور تلاوت کے بعد نماز اشراق پڑھے بغیر مسجد سے باہر نہیں آتے تھے،کبھی کوئی ایمرجنسی آپڑی ، والدہ نے کسی بچے کومسجد بھیجا تاکہ بلا کر لے آئے لیکن اباجی نے ہاں ہاں کرکے پھر بھی مسجدمیں اپنا مشغلہ جاری رکھا،نہ نکلے نہ فوری طورپرآنے کاکوئی وعدہ کیا۔
ایک زمانے کے بعدجب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت پر نظر پڑی تو اباجی مرحوم یاد آگئے ،حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی الغداۃ فی جماعۃ ثم قعدیذکراللّٰہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجرحجۃ وعمرۃ ،قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص فجر کی نماز با جماعت ادا کرے، اور پھر سورج طلوع ہونے تک اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے اور پھر دو رکعت نماز ادا کرے تو یہ اس کے لیے ایک حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مکمل، مکمل ، مکمل حج اور عمرے کے برابر۔(ترمذی)
حضرت جابربن سمرہ ؓ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :
ان النبی کان اذاصلی الفجر جلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازفجرسے فارغ ہوجاتے تواپنی جگہ پر تشریف فرمارہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہوجاتا۔
بتاتاچلوں کہ میرے والد صاحب کم پڑھے لکھے انسان تھے،ان کی تعلیم برائے نام تھی ۔ایک ہم ہیں جوخود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں، دنا و بینا ہونے کابھی گمان ہے،عقل وشعور کی پختگی کابھی غرہ اورطرہ ہے،بلکہ دوسروں کوحقیر وکمتر سمجھنے کابھی مرض ہے ، بایں ہمہ شاید ہی کبھی توفیق ملتی ہوکہ نمازکے بعدکچھ ہی دیرسہی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں،ہاں یہ توممکن ہے کہ ہم مسجدکے دروازے کے پاس کچھ دیر تک اس لئے کھڑے رہیں کہ بھیڑکی وجہ سے چپل جوتے نہیں ملیں گے ،یاکندھے سے کندھاچھلے گا،یاکپڑوں میں سلوٹیں پڑجائیں گی، مسجد سے نکلتے وقت لوگوں کی جوکیفیت دیکھنے اور مشاہدے میں آتی ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنامشکل ہے، لگتاہے پیچھے سے کوئی فوج حملہ آور ہوچکی ہے اورلوگ راہ فراراختیارکرنے کے لئے ایک دوسرے پر گرے جارہے ہیں۔اس بھاگم بھاگ میں بعض کے چپل ٹوٹ جاتے ہیں توبہتوں کے جوتے اپنی پالش اورسجاوٹ کھو دیتے ہیں،روندے ہوئے چپلوں اور جوتوں کی شکلیں بسااوقات پہچاننا مشکل ہوجاتاہے۔
ذرا سوچئے!اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تویہ فرمارہے ہیں کہ کل قیامت کے دن عرش الہٰی کے سایے میں رہنے والے سات خوش نصیب لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جوقلبہ معلق فا المساجدکامصداق ہویعنی جس کادل مساجد میں اٹکا رہے۔اوراس حدیث شریف کی روشنی میں ہم اپناجائزہ لیتے ہیں توہماری کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہم اپنے گھروں،دکانوں ،مکانوں اورمساجدکے باہر کھڑے یابیٹھ کرجماعت کھڑی ہونے کاانتظارکرتے ہیں۔ٹھیک تکبیرکے موقع پرہم مساجد پہنچتے ہیں ،اگرامام نے نمازمیں قرا ء ت کچھ طویل کردی تو ہماری گردنیں تن جاتی ہیں،اگر امام نے مسنون ومطلوب تعدیل ارکان کردیا توبھی ہماری حالت غیر ہونے لگتی ہے۔یہ ساری چیزیں ہمارے اندرون کی عکاس اور غماز ہیں ،ان سے ہم اپنی ایمانی حالت وکیفیت کاخودہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کس چیزکاتقاضاکرتے ہیں اورہمارانفس ہمیں کس راہ پرلے کرجارہاہے ،ہم فیصلہ کرسکتے ہیں اپنی کامیابی اورناکامی کا۔
چلتے چلتے حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کرتاچلوں:
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی جو بیٹھنے والے حضرات تھے وہ بیٹھ گئے اور جو جانے والے تھے چلے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس تیزی سے تشریف لائے کہ آپ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اپنے گھٹنوں کے سہارے بیٹھ کر فرمایا : تم خوش ہو جائو کہ تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے کہ میرے بندوں کی جانب دیکھو، ایک فریضہ پورا کر کے دوسرے فریضہ کا انتظار کر رہے ہیں۔(ابن ماجہ)
1 تبصرے
ماشاءاللہ بہت عمدہ سیٹنگ کی ہے
جواب دیںحذف کریں