65a854e0fbfe1600199c5c82

اصحاب کہف کے تذکرے میں

 


اصحاب کہف کے تذکرے میں اللہ تعالی نے ایک بڑا خوبصورت جملہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:


"ہم نے ان کے دل خوب مضبوط کر دیے تھے، جب وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔۔۔۔۔"


اس آیت میں اگر آپ تدبر کریں تو پہلے "قاموا" کا لفظ ہے جو کھڑے ہونے کا معنی دے رہا ہے، پھر "قالوا" کا لفظ ہے جو بات کرنے کا معنی دے رہا ہے۔


 اصحاب کہف (جو چند نوجوانوں کا ایک گروپ تھا) پہلے کھڑے ہوئے، بعد میں بات کی۔ عالی ہمت لوگ ہمیشہ اپنے فعل کو قول پر مقدم رکھتے ہیں۔ وہ بیٹھے بیٹھے، صرف دعووں کے بل پر نہیں جیتے کہ ہم ایسے کر دیں گے، ویسے کر دیں گے اور جب کرنے کا وقت آئے تو انہیں سانپ سونگھ جائے۔ زمین کی طرف جھک جائیں۔ تمام کروفر پل بھر میں جواب دے جائے۔


 نہیں۔۔۔ مسلمان نوجوان ایسا نہیں کرتا۔۔۔۔ خدا کو ماننے والا نوجوان پہاڑ کے مانند جاندار اور طاقتور دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔ وہ کہف کے نوجوانوں کی طرح کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔۔ کس لیے؟؟؟


کفر و شرک کی تیز ہواؤں کا مقابلہ کرنے کےلیے۔۔۔۔ گناہوں کے طوفانوں سے لڑ جانے کےلیے۔۔۔۔۔ نفسانی خواہشات کی آندھیوں کا رخ پھیر دینے کےلیے۔۔۔۔ اپنے حصے کا کام کرنے کےلیے۔۔۔۔ دوسروں کےلیے بلند حوصلہ کا نمونہ بننے کےلیے۔۔۔۔ ناموافق حالات کے تھپیڑے برداشت کرنے کےلیے۔۔۔ اپنے ایمان کو بچانے کےلیے۔۔۔۔ توحید کے نعرہ پر ڈٹ جانے کےلیے۔۔۔۔ وہ کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔ آئندہ آنے والی نسلوں کےلیے۔۔۔ وہ کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔ فتنوں سے بچنے کےلیے۔۔۔۔


وہ گناہ کے ماحول میں، غلط دوستوں کی صحبت میں، نفس و شیطان کے پجاریوں کی مجلس میں، رقص و سرود کی محفلوں میں، محرمات کے مرتکبین میں، ایمان و عقیدہ میں شک پیدا کرنے والوں میں ٹھہرتا نہیں ہے، بیٹھتا نہیں ہے بلکہ قرآن کے لفظ "قاموا" کو یاد رکھتے ہوئے اٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ 


اس کا مورال بہت بلند ہے۔ اس کی ہمت لاجواب ہے۔ وہ زندگی کی جدوجہد میں تساہلی نہیں برتنا چاہتا ۔اس کے سینے میں کھڑے ہونے کی آگ لگی ہے جو کسی لمحے اسے بیٹھنے نہیں دیتی۔


جب وہ کھڑا ہوجاتا ہے تو چاہتا ہے:


 جس طرح میں نامساعد حالات کے سامنے سینہ سپر ہوں، سب ہو جائیں۔ 


جس طرح میں فتنوں کے مقابل بنیان مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) ہوں ، اسی طرح ہو جائیں۔


 وہ خود بھی شیطانی طاقتوں کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑا نظر آتا ہے اور سب کو کھڑا رکھنا چاہتا ہے۔


پھر جب وہ کھڑا ہو جاتا ہے تو سوچتا ہے اگر اکیلا لڑوں گا تو تھک جاؤں گا۔ ہار جاؤں گا۔ ہمت جواب دے جائے گی۔ حوصلہ پست ہو جائے گا، ہزار ہا دروازوں کی خاک چھاننی پڑے گی۔ اس لیے پھر وہ کہتا ہے:


 ربنا رب السموات والارض ۔۔۔۔ 


یعنی وہ اپنے ساتھ خدا کو ملا لیتا ہے۔ اس کی مدد و نصرت کو شامل حال کر لیتا ہے۔ ایک دہلیز پر اپنا سر رکھ لیتا ہے۔ 


پھر خدا اسے فتنوں سے بچاتا ہے۔خدا اپنی مخلوق کے شر سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ خدا اس کے دل میں معاصی کی نفرت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے دل میں ایمان کا نور جگمگانے لگتا ہے۔ ایمان کی حلاوت محسوس ہونے لگتی ہے۔ گناہوں کی گھٹاس نیکی کی مٹھاس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ 


پھر خدا اسے فتنوں کی آندھیوں میں پُرسکون نیند سلائے رکھتا ہے۔ جب وہ رب رحمن کی رحمت میں آ جاتا ہے تو باہر حالات بدلتے ہیں، بادشاہتیں تبدیل ہو جاتی ہیں، نسلوں کی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں، دنیا کا نقشہ بدل جاتا ہے لیکن اس نوجوان کے دل میں خدا کی محبت اسی طرح موجزن ہوتی ہے جیسے پہلے تھی۔ اس کے دل میں وہی سکون ہوتا ہے جو پہلے تھا، اس نوجوان کے دل میں کھڑے ہونے کی آگ کو دیکھ کر اور اپنے ساتھ رب کو ملانے کی تڑپ دیکھ کر خدا اعلان کرتا ہے کہ سن لے اے نوجوان!


ہم نے تیرے دل کو ڈھارس دے دی ہے۔ اب تجھے کوئی نہیں راستے سے ہٹا سکتا۔


پھر خدا اس نوجوان کے قصہ کو دوسروں کےلیے اپنی ابدی کتاب میں لکھ دیتا ہے جو نوجوان فتنوں کے زمانے میں اللہ کےلیے کھڑا ہوا تھا۔ 


محمد اکبر

14مئی 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے