65a854e0fbfe1600199c5c82

ہاتھ سے بنی تصویر ایک عام غلط فہمی



 - - - - - ہاتھ سے بنی تصویر ایک عام غلط فہمی - - - - - 

تحریر: جواد عبدالمتین

اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس

بیت الحکمہ ایجوکیشن سسٹم 

==========================


ایک عجیب بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ ہاتھ سے بنی جاندار کی تصویر تو حرام ہے لیکن کیمرے سے بنی تصویر تو ہاتھ سے نہیں بنتی. 

-

-

-

تو جناب گزارش ہے کہ انسان نے تو ہاتھ سے کبھی تصویر بنائی ہی نہیں۔

 وہ تو ہمیشہ سے مختلف اوزاروں کے ذریعے تصویریں بناتا رہا ہے۔


جیسے رنگ ، برش، کاغذ اور قلم وغیرہ۔

اور یہ سارے اوزار بنانے کی الگ الگ محنت ہوتی تھی۔

 جیسے رنگ بنانے کی الگ محنت ،

برش بنانے کی الگ محنت،

کاغذ بنانے کی الگ محنت،

قلم بنانے کی الگ محنت وغیرہ ۔

یعنی ہمیشہ سے تصویریں ہاتھ سے نہیں بلکہ ان اوزاروں سے بنائی جاتی تھیں اور ان اوزاروں کو بنانے کی الگ محنت ہوتی تھی۔

-

-

-


 اسی طرح آج انسان وہی محنت کیمرہ بنانے پر کرتا ہے اور پھر ہاتھ سے اس کیمرے کو استعمال کرتا ہے۔


-

-

-

جیسے کاغذ قلم اور رنگ وغیرہ کا استعمال فی نفسہٖ جائز ہے لیکن اس کے ذریعے جاندار کی تصویر کشی سخت ناجائز ہے۔

-

-

-

اسی طرح کیمرہ فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں لیکن اس کے ذریعے سے جاندار کی ویڈیو گرافی اور تصویر کشی سخت ناجائز ہے۔

-

-

-

جن لوگوں کو یہ گمان ہے کہ کیمرے سے بنی تصویر عکس ہوتی ہے تو یہ گمان غلط ہے کیونکہ 

 عکس صاحبِ عکس کے تابع ہوتا ہے۔

جب صاحبِ عکس وہاں سے ہٹ جائے تو وہ دوبارہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔

صاحبِ عکس کے وہاں سے ہٹ جانے کے بعد جو دوبارہ قائم ہو سکے وہ تصویر کے حکم میں ہی ہے۔ چاہے اس کے لیے جیسی بھی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے خواہ کاغذ، قلم، پینٹ اور برش ہوں یا سلیکون مائیکرو پروسیسر اور مختلف طرح کے سینسر۔

-

-

-

جاندار چیزوں کی تصویرکشی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ.


لیکن جاندار کی تصویر کشی کے نقصانات کے پیش نظر شریعت مطہرہ نے اسے ناجائز قرار دیا اور اس پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئیں۔


معاشرے میں جاندار کی تصویر کشی عام ہونے کا کم سے کم نقصان شرک اور بے حیائی کا عام ہونا ہے۔

اور اب روزے روشن کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ جاندار کی ڈیجیٹل تصویر سے بھی یہی دو نقصانات ہوئے ہیں جس سے ہماری مذہبی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے جنازے نکل گئے ہیں۔

-

-

-

تو اب بھی اگر کوئی اس تذبذب میں ہے کہ جاندار کی ڈیجیٹل تصویر میں کوئی ایسی خیر پوشیدہ ہے جو ہمیں دین کی اشاعت میں مدد کرے گی تو پھر اس کے لیے صرف ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

-

-

-

کیونکہ 60 کی دہائی سے پہلے یہودی اور عیسائی بھی اپنے دین کی ترویج کے لیے ڈیجیٹل تصویروں کو استعمال کر چکے۔ نتیجتاََ ان کی عوام ان کے علماء سے دور ہو گئی اور پھر ان کے اپنے ملکوں سے ان کا دین مٹ گیا اور وہاں دہرت عام ہو گئی اور پھر یہی حال اہل زبان عربوں کا ہوا اور اب ہم اس کے نشانے پر ہیں۔

-

-

-

یہ جو ہمارے نادان بھائی اپنی ویڈیوز بنا کر دین کی خدمت کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ذرا اپنی اس محنت سے پڑنے والے اثرات کے اعداد و شمار بھی ملاحظہ فرما لیں کہ وہ کیا دین کی خدمت کر رہے ہیں یا لوگوں کو اپنے مقامی علماء کرام سے دور کر کے شیطان کا شکار بنانے میں معاون بن رہے ہیں۔

-

-

-

ضرور ہی اس ٹیکنالوجی کو دین کی ترویج کے لیے استعمال کرنا ہے تو کم از کم اپنے ان نورانی چہروں کو چھپا کر رکھیے۔

-

-

-

 اگر چہرے دکھانے سے ہدایت پھیلتی تو وہ منور چہرے جو 1400 سال پہلے گزر چکے اس بات کا زیادہ حق رکھتے تھے کہ ان کو تصویروں اور مجسموں کی شکل میں محفوظ کر لیا جاتا اور لوگ انہیں دیکھ کر ہدایت حاصل کرتے، مگر ایسا نہیں ہونا تھا اس لیے ہی اس راستے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔


ورنہ آپ کا کیا خیال ہے کہ 1400 سال پہلے ماہر مصور اور مجسمہ ساز موجود نہیں تھے ؟

-

-

-

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں احادیث مبارکہ میں چھپی حکمتوں کی سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


================

وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ

================

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے