65a854e0fbfe1600199c5c82

حافظ قرآن نہ ہونے کا احساس



 سنو سنو
حافظ قرآن نہ ہونے کا احساس


ناصر الدین مظاہری) 


میرے عہد طالب علمی میں میرے علاقہ میں حفظ قرآن کریم کا ماحول نہیں تھا مولویت ہی سب کے پیش نظر رہتی تھی چنانچہ میں بھی ناظرہ پورا ہوتے ہی مولویت میں لگادیا گیا اس طرح میں گاؤں کے ان مولویوں میں شمار ہوتا ہوں جو غیر حافظ ہیں لیکن فارغ ہوتے ہی جب جگہ جگہ جانے کی نوبت آئی،منبر و محراب سے پکارنے اور صدا لگانے کی توفیق ملی تو آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہی سب سے بڑا سہارا ہوتے ہیں، احادیث شریفہ تو الحمدللہ دماغ میں آجاتی ہیں لیکن آیات مبارکہ سے دامن خالی ہے، دل ودماغ میں آیت کا مضمون بھی ہے مفہوم بھی ہے لیکن اصل چیز متن وہ نہیں ہے ایسے میں سوائے اپنے آپ پر کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہیں، کسی بھی مضمون اور عنوان پر بولنے کے لئے کتنا ہی وسیع المطالعہ ہو تجربات ہوں، متون اور اقتباسات واقعات ازبر ہوں لیکن قرآنی اثاثہ سے تہی اور خالی ہوں تو یقین کیجیے ایسا لگتا ہے جیسے کسی اے سی کوچ میں بغیر ٹکٹ بیٹھ گئے ہوں۔ 


میں تو حافظ نہ بن سکا لیکن حفاظ سے محبت بہت کرتا ہوں، فضائل حفظ قرآن پر الحمدللہ بسط وتفصیل سے گفتگو کرتا ہوں، جب کسی حافظ کے سر پر دستار باندھی جارہی ہوتی ہے یا باندھ رہا ہوتا ہوں تو میرا دل حافظ قرآن کی سعادت مندی پر مسرور ہوتاہے لیکن خود میرے کپکپاتے ہاتھوں اور نمدیدہ آنکھوں کو سوائے رب العالمین کے کوئی نہیں دیکھتا۔ 


کتنے کم سن کم عمر ننھے ننھے پیارے پیارے بچے حافظ ہوجاتے ہیں انھیں جب دیکھتا ہوں تو دل سے ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش مجھے کسی مولوی کے پاس نہیں کسی حافظ کے پاس بٹھایا جاتا، مولوی اپنے طالب علم کو مولوی بنائے گا، قاری قاری بنائے گا، مفتی مفتی بنائے گا اور حافظ قرآن حافظ بنانے کے سو سو جتن کرے گا۔ 


جب بھی کسی بچے کی تقریب ختم کلام اللہ میں پہنچتا ہوں تو دستاربندی کے وقت باربار سوچتا ہوں کہ آج اس بچے کے سر پر دستار فضیلت رکھی جارہی ہے کل کو اس کے والدین کے سروں پر تاج سجایا جائے گا "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا"


 "جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا"۔


یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ بچہ ان خوش بختوں اور نیک بختوں میں حفظ قرآن کی وجہ سے شامل ہوگیاہے جس کی شفاعت اور سفارش سے دس ایسے لوگوں کو جنت بھیجا جائے گا جن کے بارے میں جہنمی ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہوگا

مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔ 


جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی"


میں اتنا غبی اور کند ذہن بھی نہیں تھا کہ تکمیل حفظ نہ کرسکتا نہ ہی اتنا کم سن اور ناتجربہ کار تھا کہ الفاظ اور مخارج کی شناخت اور قراءت مشکل ہوجاتی، حالات بھی تھے، موقع بھی تھا بس رسم دنیا اور دستور کا قحط تھا، اپنے ابا جی سے کبھی کبھی غصہ اور شکایت بھرے لہجہ میں عرض بھی کرتا کہ مجھے حفظ کے درجہ میں کیوں نہیں بٹھایا ؟ ان کا بس یہی جواب ہوتا کہ اس وقت پورے گاؤں کی توجہ وانہماک مولویت میں تھا۔ 


جب مضامین لکھنے کا موقع میسر آیا تو شدت سے احساس ہوا کہ کاش مجھے بھی حفظ کرایا گیا ہوتا یہ احساس اتنا شدید ہے کہ میں نے اپنے گھر اور خاندان کے بچوں کو حفظ کرانے کی ٹھانی، پہلے پہل میرے برادر زادے مفتی محمد لئیق سلمہ نے حفظ کیا، پھر میرے بھانجے انصاف سلمہ نے حفظ کیا، پھر دوسری بہن کے بیٹے محمد مقیم مظاہری نے حفظ کیا، پھر میرے بیٹے محمد ریحان نے اپنا نام اس زریں فہرست میں لکھوایا اور اب ایک اور بھتیجا محمد احسان سلمہ نے تکمیل حفظ کرکے شاد ومسرورکیاہے۔ اللہ پاک یہ سلسلہ جاری رکھے۔


ہم اللہ وحدہ لاشریک لہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں ایک ایسے ملک میں پیدا فرمایا ہے جہاں سب سے زیادہ حفاظ ہیں، جو حفاظ کی گویامنڈی ہے، جوپوری دنیا کو حفاظ سپلائی کرتاہے، جہاں دارالعلوم ہے، مظاہرعلوم ہے، ندوۃ العلماء ہے، چپہ چپہ پر مدارس اور مراکز ہیں، آپ کو کسی بھی اسلامی ملک میں ان شاءاللہ نہ تو اتنے مدارس ملیں گے، نہ اتنے حفاظ دستیاب ہوں گے، نہ اتنا علم ملے گا۔ کیا اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لئے یہی چیز کافی نہیں ہے۔ ؟ 


خدارا اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کرائیں، قرآن کریم سے اپنا رشتہ مربوط اور مضبوط بنائیں، علم کا نور جہاں جہاں ہوتاہے تاریکی وہاں داخل نہیں ہوسکتی، اپنے گھروں کا ماحول اور مزاج قرآن کے مطابق بنائیں کیونکہ خالص علم، خالص اسلامی تعلیمات، خالص ایمانی تقاضوں کی تعبیر اور تعمیر آپ کے پاس ہے۔


4/رجب المرجب 1445ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے