65a854e0fbfe1600199c5c82

خلاصہء خطاب حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم

 

خلاصہء خطاب امیرملت نمونہ اسلاف عارف باللہ حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند


بموقع :جلسہءدستاربندی دارالعلوم شاہ ولی اللہؒ بنگلور

مؤرخہ ٤/جنوری ٢٠٢٤


ضبط وتلخیص:صدام شاہی قاسمی مسجد عقبیٰ بنگلور


فرمایاکہ ....:

 یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس وقت ملت کی سب سے بڑی دینی ضرورت مدارس کا قیام ان کا استحکام اور اکابر کے نھج پر ان مدارس کو چلانا جس میں نصابِ تعلیم طریقہءتعلیم اور مدرسہ کو چلانے کا جو نظم ہے یعنی عوامی چندے سے مدرسے کو چلانا سرکاری امداد کی مداخلت کے بغیراس پر سختی سے قائم رہاجائے، اس کے بغیر اس ملک کے اندر آئندہ نسلوں کے ایمان اور ان کے عقیدہ کی حفاظت کی کوئی شکل نہیں ہے اور موجودہ دور میں جب کہ ارتدادی فتنے بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں ان پر قدغن لگانے کے لیے بھی سوائے مدرسوں اور مکتبوں کے قیام اور ان کے ترقی اور نشو نما کے کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ 


فرمایاکہ ....:

 ماضی قریب میں جو کئی فتنے وجود میں آئے جس میں ایک شکیلیت کا فتنہ ہے جو انتہائی خطرناک ہے، یہ شکیلی بہت دیندار نوجوانوں کی شکل میں تبلیغی جماعت کے اندر شامل ہو کر اور ان نوجوانوں سے تعلق کر کے جن کے اندر دینی مزاج کا ان کو احساس ہوتا ہے اور خاص طور سے اسکول و کالج کے طلبہ اور طالبات جن کے اندر دینی تعلیم کا کوئی عنصر نہیں ہے جنہوں نے بنیادی دینی تعلیم حاصل نہیں کی ہے عقائد سے واقف نہیں ہیں ان کے کان بھرتے ہیں اور ان کو یہ بتلاتے ہیں کہ امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام جن کے ظہور  کی پیشین گوئی کی گئی تھی وہ آچکے ہیں اور وہ شکیل بن حنیف ہیں جو عیسٰی بھی ہیں اور مہدی بھی ہیں ابتدا میں لوگوں نے اس کو بکواس سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن یہ فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا چلا جا رہا ہے، اورنگ آباد کے علاقہ میں شکیلیوں نے اپنا مرکز قائم کر لیا ہے علاقہ ایسا بنا لیا ہے کہ جہاں صرف شکیلی ہی آباد ہیں،



فرمایاکہ.....:

 اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہ علماء کرام فضلاءکرام چاہے آج ان کے سر پہ دستار رکھی جا رہی ہےآج ہی وہ فارغ ہوں یا پہلے سے علماء کی جماعت میں وہ شامل ہوں نوجوان ہوں بوڑھے ہوں سن رسیدہ ہوں ان سب کی مشترک ذمہ داری یہ ہے کہ فتنوں کا ادراک کریں فتنوں کا احساس کریں اور ان کا کام صرف اتنا نہیں ہے کہ مدرسہ چلائیں مکتب چلائیں بچوں کو پڑھا کے ان کو عالم اور حافظ قاری بنا دیں، نہیں...؟ بلکہ دین کی حفاظت انہی کی ذمہ داری ہے ۔


فرمایاکہ .....:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی اس امت کے اندر ہر سو سال کے اوپر ایک ایسے شخص کو پیدا فرمائیں گے کہ جوکہ اس امت کے اس دین کی تجدید کرے گا جس کو مجدد کہتے ہیں، امت کے پہلے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ تھے، علماء نے لکھا ہے کہ دوسرے مجدد حضرت امام شافعی رحمت اللہ علیہ تھے،اور یہ سلسلہ چلتا رہایہاں تک کہ شیخ احمد سرہندی کو مجددالف ثانی قرار دیا گیا، اور ہمارے استاد علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی رحمت اللہ علیہ جو شیخ الہند رحمت اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور ان کا آخری دورہ سن ١٣٧٨ہجری میں ہم لوگوں نے پڑھا اسی سال ان کا انتقال ہوگیا وہ اپنے درس میں یہ فرماتے تھے کہ تجدید کا کام اللہ تعالی کبھی کبھی افراد سے لیا کرتے ہیں کبھی جماعتوں سے لیا کرتے ہیں، ان کا یہ فرمانا تھا کہ اس صدی کا مجدد اللہ تعالی نے دارالعلوم دیوبند کو بنایا اور شعبے تقسیم کر دیے، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ کلام کے مجدد ہوئے جنہوں نے عقائد کی تجدید کی ایک طرف سناتن دھرمی ایک طرف عیسائی ایک طرف آریا سماجی ایک طرف ہندو ان سب کی طرف سے آنے والے اعتراضات کا جواب دیا اور اسلام کے چہرے کے اوپر پڑھنے والے داغ دھبوں کو صاف کیا، ایک طرف حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ جو فقیہ النفس تھے جنہوں نے فقہ و حدیث کی خدمت کی اور اس کے اندر وہ امام وقت قرار پائے، ایک طرف حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی علیہ الرحمہ جنہوں نے بدعات کو خرافات اور رسم و رواج کے خلاف قلم اٹھایا اور سلوک و احسان اور تصوف کی تجدید کی اس میں جو خرافات شامل ہو گئی تھیں ان کا قلع قمع کیا، اسی طرح حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ جنہوں نے قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی، مولانا مرتضی حسن چان پوری رحمة اللہ علیہ جنہوں نے احمد رضا خان سے مناظرے کیے اور رد بدعت کے اندر ید طولی رکھتے تھے، اسی طریقے سے مختلف علاقوں میں مختلف اکابر علماء دیوبند سے اللہ تعالی نے دین کی خدمت لی اللہ کے فضل و کرم سے ہم سب انہیں اکابر کے نام لیوا ہیں انہی سے نسبت رکھتے ہیں جو کام ہمارے بڑوں نے کیا ہے جو خدمت انہوں نے انجام دی ہےآج یہ ہماری ذمہ داری ہے اپنی صلاحیت اپنی گنجائش اپنے وسعت اور جو کچھ اللہ تعالی نے ہمت عطا فرمائی ہے اس کے اعتبار سے اپنی صلاحیت سے کام لیں مطمئن ہو کر نہ بیٹھیں،


فرمایاکہ .......:

 دارالعلوم دیوبند جو ہم سب کا مرکز ہے اور وہاں رابطہءمدارس اسلامیہ عربیہ کے نام سے ایک شعبہ قائم ہے جس میں دارالعلوم کے طرز پر چلنے والے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس اس سے مربوط ہیں، وہاں سے ان کو نصابِ تعلیم نظامِ تعلیم طریقہء تعلیم ان امور کے سلسلے میں برابر ہدایات دی جاتی ہیں، تین سال میں ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے اس میں برابرہدایت دی جاتی ہے کہ مدرسہ اپنے اطراف کی خبرگیری کرے اطراف میں پنپنے والے فتنوں کی نشاندہی کرے ان کے قلع قمع کی کوشش کرے رسم و رواج پر قدغن لگائے، عقیدے کی لائن سے جو غلط چیزیں پھیل چکی ہیں ان کو ہٹائے ،اسی طرح ایک ہدایت یہ بھی دی جاتی ہے کہ ہر مدرسہ اپنے بجٹ کادس فیصد حصہ مکاتب کے قیام کے اوپر خرچ کرے 



 فرمایاکہ .....:

 آج اس عظیم الشان مجمع کے اندر میں آپ حضرات سے بھی یہ دو باتوں کا عہد لینا چاہتا ہوں ایک تو یہ کہ تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں جس میں قادیانیت کا بھی مقابلہ ہے شکیلیت کا بھی مقابلہ ہے گوہر شاہی کا بھی مقابلہ ہے آپ تن من دھن سے اپنی تمام خدمات کو اس کے لیے پیش کریں گےاور جس سے جو بن پڑے گا اس کے اندر حصہ لینگے، عقیدے کی تعلیم بنیادی تعلیم ہے مکتب کے اوپر زور دیں اور خاص طور سے جو منظم مکاتب ہیں منظم مکاتب کا مطلب یہ ہوتا ہے جمیعت علماء ہند کی طرف سے ادارہ دینیات کی طرف سے ایک نظام بنایا گیا ہے جس میں جز وقتی مکاتب ہوتے ہیں اسکولوں میں پڑھنے والے ہمارے بچے ایک گھنٹہ دو گھنٹہ اپنی سہولت کے اعتبار سے وہ مکتب کے اندر دیں اور پڑھانے والے کئی گھنٹے پڑھائےگا لیکن پڑھنے والا ایک گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیے آئے گا تو وہ اجتماعی تعلیم دی جاتی ہے بیس طلبہ ہیں تو سب کو ایک ساتھ پڑھایا جاتا ہے، الحمدللہ اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں بچوں میں دلچسپی ہوتی ہے ان کے سرپرستوں کے اندر شوق ہوتا ہے ان کا خاص بستہ ہوتا ہے خاص ڈریس ہوتا ہے گویا وہ اسکولی بچوں کے مقابلے پر اپنے اندر ایک احساس برتری ان کو محسوس ہوتا ہے احساس کمتری سے نکل کر وہ شوق و ذوق کے ساتھ آتے ہیں مکاتب کا قیام کریں،


فرمایاکہ ......: 

 آپ اگر مکتب قائم کرتے ہیں تو اس کے لیے آپ کودو کام کرنا ہوگا ایک تو معلمین کی تربیت کہ ان مکاتب میں پڑھانے کے لیے معلم کو تربیت دی جائےکہ کیسے پڑھانا ہے مدرسہ ان کے مصارف برداشت کرتا ہے پھر بڑے مدرسے ایک معلم ایک نگراں کی تنخواہ اپنی ذمہ لیتے ہیں اور اس نگران کا کام یہ ہوتا ہے کہ اطراف کے بیس مکاتب کی مکمل نگرانی کرتا ہے روزانہ ان میں حاضری لے کر وہاں کا جائزہ لیتا ہے جوضرورت ہے اس کی تکمیل کرتا ہے جو کوتاہی ہے اس کی اصلاح کرتا ہے اس طرح الحمدللہ یہ نظام چل رہا ہے تو اب مدارس اپنی ذمہ داری کے اندر اس کو شامل کریں اور جو افراد ہیں وہ تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے مجالس قائم کر کے یا اگر علاقہ میں کوئی دار العلوم کےزیرِ انتظام صوبائی مجلس قائم ہے تو اس سے مربوط ہو کر دو شکلیں ہیں، ایک ہے مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام جو کسی ادارہ کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ علاقہ کی ایک مجلس ہوتی ہے اور تمام علماء اس میں شریک ہوتے ہیں، ایک ہوتا ہے مدرسہ کے اندر شعبہء تحفظ ختم نبوت قائم کرنا یہ دونوں چیزیں ہیں ان دونوں کے اوپر عمل کرنا چاہیے ،اس سلسلہ کی تصنیفات کا مطالعہ کریں دارالعلوم دیوبند میں الحمدللہ ہر موضوع پر کتابیں تیار ہو چکی ہیں رد شکیلیت میں بھی کتابیں ہیں گوہر شاہی کے متعلق بھی ، قادیانیت کے سلسلے میں کافی لٹریچر موجود ہیں ان کو منگائیں ان کا مطالعہ کریں،


فرمایاکہ ....:

 ارتداد کی جو ہوا چل رہی ہے بڑی تعداد میں ہماری بچیاں غیروں کے ساتھ جا رہی ہیں،اس کے اسباب میں ہمیں غور کرنا چاہیے، اس کے متعدد اسباب ہیں سب سے پہلی چیز تو یہ کہ ان بچوں اور بچیوں کے دل میں ان کے ذہن کے اندر مذہب کی عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ اس کو بدلنے والے لباس کی طرح سمجھتے ہیں کہ کسی غیر سے شادی کرنے کے لیے اس کے مذہب کو اپناکریااپنا مذہب تبدیل کر کے اس کے مذہب کو اختیار کر لیا یا یہ طے کر لیا کہ تم اپنے مذہب پر رہوہم اپنے مذہب پر رہیں گے ہم دونوں میاں بیوی بن کر رہیں گے حالانکہ وہ نکاح ہے ہی نہیں وہ زندگی بھر کی حرام کاری ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو ابتدائی درجات میں اور بالغ  لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم بالغان کے ذریعہ عقائد کی تعلیم دی جائے ایمانیات ان کو بتایا جائے ایمان کی عظمت اور اس کی حقیقت کو بتلایا جائے بعث بعد الموت مرنے کے بعد کی زندگی حساب و کتاب آخرت کا تصور ان کے ذہن میں جمایا جائے، دوسری چیز یہ ہے کہ بچوں کو ایسے اسکولوں اور مدرسوں میں داخل کیا جائے کہ جہاں دین کی تعلیم دی جا رہی ہو اور اگر اسکول میں پڑھ رہے ہیں تو لازمی طور پر ان کو منظم مکاتب کے اندر داخل کر کے بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے اسی طرح نوجوان بچوں اور بچیوں کے لیے جو شبینہ مکاتب ہوتے ہیں وہ قائم کر کے ان کو تعلیم دی جائے ایسے ہی جہالت کی وجہ سے جو لوگ دین سے برگشتہ ہو جاتے ہیں ان کے علاقے میں مدارس و مکاتب قائم کۓ جائیں ۔ 


فرمایاکہ.......:

بہت سے لوگ معاشی تنگی کی بنا پر تنگدستی کی بنا پر دوسرے مذہب میں چلے جاتے ہیں اور خاص طور سے قادیانی دیہاتوں کے اندر مسجد کے نام پر اپنا مرزا واڑا قائم کرتے ہیں معلم لا کر دیتے ہیں غریب لوگ ہیں وہ سوچتے ہیں ہمارے بچوں کو مفت میں پڑھانے والا مل گیا وہ ان کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اس سے زیادہ عیسائی مشنری کے لوگ دیہاتوں  میں غلہ پہنچا کر دوائیں پہنچا کر ایمبولنس پہنچا کر جھونپڑیاں ڈال کر لوگوں کو ان کے مذہب کو برگشتہ کرتے ہیں اللہ تعالی نے جن کو گنجائش دی ہو ایسے لوگوں کا پتہ حاصل کر کے ان کی امداد کریں تاکہ وہ اپنی معاشی تنگی کی وجہ سے غلط راستے پرنہ چلے جائیں


 فرمایاکہ .....:

آخر میں میں ان فضلاءکرام کو جنہوں نے آج یہاں دستار فضیلت حاصل کی ہے سن ٢٠١٤ سے لے کر اب تک کے جن کی تعداد سینکڑوں سے زیادہ ہے ان سب کو مبارکباد دیتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے سر پہ جو دستار رکھی گئی ہے یہ صرف اعزاز نہیں ہے بلکہ اظہارِاعتماد ہے اور ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہےوہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں وہ جس مشغلہ کے اندر بھی رہیں لیکن اپنے عالم حافظ قاری ہونے کی حیثیت کو مجروح نہ ہونے دیں اور اس فیض کو آگے تک پہنچانے کی کوشش کریں،



*تلک عشرة کاملہ*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے