سنو سنو !!
میزبان کو ستانے کے طریقے(2)
(ناصرالدین مظاہری)
کل "سنو سنو" کالم کے تحت "میزبان کو ستانے کے طریقے" کے عنوان سے مضمون کیا لکھا کہ ستائشی اور تعریفی پیغامات اور میسجز کی بھرمار ہوگئی۔ ان پیغامات کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اکثریت ان مظلوموں اور زخم خوردہ شاہینوں کی ہے جنھوں نے "میزبان" بننے کی تاریخی دانشمندی کی اور پھر خود ہی تاریخ اور کردار کو یاد کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سہارنپور کے ایک گاؤں سے میرے ایک عزیز دوست نے فون پر بتایا کہ ان کے گاؤں میں ایک مقرر شعلہ بیان کا پروگرام تھا۔ ان کے نام کی شہرت اتنی کہ میں نے ضیافت کے فرائض انجام دینے کی کمر ہمت باندھ لی۔ معقول اور مرغوب اشیاء زینتِ خوان کی گئیں۔ مہمانوں کا اکرام بہرحال حکمِ نبوی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ مہمان کے لئے اپنی دیگ میں اپنے دل کی بریانی، اپنی کلیجی کے کباب اور اپنے گردوں کا سوپ پیش کردے۔
اب سنئے کہانی جو لکھنے سے زیادہ سننے میں لطف دے گئی اور سننے سے کچھ کم یا زیادہ پڑھنے والوں کو لذت دے جائے گی۔
دسترخوان پر رنگا رنگ، خوش رنگ چیزیں کھانے والوں کو دست درازی کی دعوت دے رہی تھیں۔ کھانے والوں میں مظاہرعلوم کے بھی کچھ شریف اساتذۂ کرام بھی تھے جو مہمان کم میزبان زیادہ تھے۔ مگر وہ صاحب جو "مقرر شعلہ بیان" تھے، وہ ہر نئی چیز پر اپنا وزنی ہاتھ مارتے جاتے اور چیزوں کی نشان دہی بھی کرتے جاتے کہ:
یہ گلاب جامن میرے کنٹینر میں رکھ دو۔
یہ پیڑے تو نہایت ہی لذیذ ہیں، انھیں بھی پیک کردو۔
یہ مٹھائی بڑی نایاب ہے، اس سے تو میں سفر میں نمَنوٗں گا۔
سنئے! یہ رس ملائی کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سفر میں ضعف و نقاہت دور کرنے اور مزاج کو تازگی بخشنے میں اہم رول اور کردار ادا کرے گی۔
بے چارے مصیبت کے مارے مظاہرعلوم کے اساتذہ "ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم" سوچ میں پڑ گئے کہ اگر یہ ساری ہی چیزیں اس مقرر شعلہ بیان کے کنٹینر میں پہنچ کر اس کے لئے معدہ و مائدہ بن جائیں گی تو یہاں بچے گا کیا؟ مجبورا کسی نے دبی دبی آواز میں صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ:
"پہلے ہم لوگ فارغ ہو لیں، پھر آپ اپنا کنٹینر بھر لینا۔"
میزبان اگر بے تکلف ہو اور مہمان بھی بے تکلف ہو تو سب کچھ جائز ہے، ورنہ اپنی عزت کو نیلام کرنے سے کیا فائدہ؟
میرے ایک مداح اور نادیدہ قاری ہیں، نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں۔ میسیج کیا کہ میرے گھر پر ایک علاقائی بزرگ کا آنا جانا رہتا ہے۔ وہ آنے سے پہلے فون پر اپنی پسندیدہ اشیاء حضرت احمد رضا خان کے وصیت نامہ کی طرح بتا دیتے ہیں کہ:
بیسن کی روٹیاں
قیمے کی کچوریاں
شامی کباب و روٹیاں ضرور ہونی چاہئیں۔
یہ بزرگانِ محترم ویسے تو بہت اللہ والے ہوتے ہیں، مگر بہت کم حضرت مفتی مظفر حسین اور مولانا محمد سعیدی جیسے بزرگ ہوتے ہیں، جو چلتے وقت صاحب خانہ یعنی "مظلوم" کے بچوں کو کچھ روپے بطور ہدیہ یا عطیہ دے کر آتے ہیں۔
ایسے موقع پر تو اچھے خاصے کبار و کبیر مہمان نظر بچا کر، نظر چرا کر، نظر سے اوجھل ہوتے دیکھا ہے۔ حالانکہ ایک مدت تک بچے ان مہمان مکرم کو اپنا موضوع اور اپنی ناراضگیوں کا ہدف بنا کر رکھتے ہیں۔
ہم صرف گیان دیتے رہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہدیہ لیا دیا کرو۔" عمل ہمارا حدیث شریف کے پہلے جز پر ہی ہوتا ہے، دوسرے جزء پر تو ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معزز قارئین کرام ! یقینا۔ کسی نہ کسی موقع پر آپ بھی ان حالات سے لطف اندوز بلکہ شرف اندوز ہوئے ہوں گے اگر کوئی دلچسپ واقعہ ہو تو بتائیں نام کو راز میں رکھنا ذمہ داری ہے
0 تبصرے