یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 26)
(ناصرالدین مظاہری)
بیماروں کی عیادت بھی کرتے اور کسی کی وفات پر تعزیت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے۔ طلبہ اگر کسی بیماری کی درخواست لے کر آتے تو خیر و خیریت کے ساتھ یہ بھی دریافت فرماتے کہ علاج کے لیے پیسے موجود ہیں یا نہیں۔ اگر جواب نفی میں ہوتا تو ڈاکٹر مرغوب سلیم کو پرچی لکھ دیتے اور طالب علم مفت میں علاج کرالیتا۔
آپ کے ایک شاگرد مفتی محمد کلیم اللہ (گاؤں بھوری بانس، کھیڑہ افغان، سہارنپور) ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ طویل عرصہ تک دہرہ دون، سہارنپور اور چنڈی گڑھ وغیرہ میں علاج ہوتا رہا۔ جب ناظم صاحب کو اس کی اطلاع ملی تو ملاقات میں شکوہ فرمایا کہ:
"تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟"
پھر فرمایا:
"میں نے تحقیق کی ہے کہ اس مرض کا بہت اچھا علاج پڑوسی ملک میں بالکل مفت میں ہوتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ علاج کے علاوہ آمد و رفت وغیرہ کے جتنے بھی مصارف ہیں، وہ مجھ سے لے لو اور والدہ کا علاج وہیں سے کرالو۔"
لیکن پڑوسی ملک میں علاج کے لیے جانا آسان نہ تھا۔ ویزے کے مستقل مسائل تھے، اس لیے مفتی کلیم اللہ وہاں نہ جا سکے۔ تاہم ناظم صاحب نے کچھ رقم عنایت فرمائی اور تاکید کی کہ دوبارہ بھی یاد دہانی کرائی جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک طالب علم بیمار ہوگیا۔ ناظم صاحب نے نہ صرف اس کے علاج کے لیے رقم دی بلکہ اس کا خاص خیال بھی رکھا۔ جب طالب علم اپنے گھر جانے لگا تو اس کا ٹکٹ بھی کرایا اور ساتھ ایک مددگار طالب علم کو بھی روانہ کیا تاکہ وہ اسے گھر تک صحیح سلامت پہنچا سکے۔
آپ کی خواہش تھی کہ مدرسہ میں ہی چوبیس گھنٹے کے لیے باقاعدہ ایک ڈاکٹر موجود ہو اور ایک بڑا ہال بطور "مستشفی" (چھوٹا اسپتال) تیار کرادیا جائے، تاکہ طلبہ کو ابتدائی علاج و معالجہ کی سہولت حاصل ہو۔ یہ خواب آپ کی حیات میں تو پورا نہ ہوسکا، لیکن اس کی ایک صورت ضرور نکل آئی۔ ڈاکٹر مرغوب سلیم صاحب سے باقاعدہ معاہدہ ہوگیا کہ وہ اپنے کلینک میں طلبہ کا علاج کریں گے۔ اس مقصد کے لیے مدرسہ کی جانب سے ایک "علاج کارڈ" تیار کرایا گیا اور طلبہ کو دیا گیا تاکہ حسبِ ضرورت علاج کراسکیں۔
وبائی اور وائرل امراض کے مواقع پر طلبہ کی سہولت کے لیے آپ مرکزی سرکاری اسپتال سے باقاعدہ اسٹاف بلواتے تھے اور طلبہ کو حفاظتی ٹیکے وغیرہ لگائے جاتے تھے۔
نظامت و تدریس کی مصروفیات نیز اسفار کا مزاج نہ ہونے کے باوجود دور دراز کے اسفار کار سے ، ٹرین اور پلین سے کرلیتے تھے۔
حضرت مولانا عبد الجلیل مظاہری (خلیفہ حضرت فقیہ الاسلام) کا انتقال ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور فوری طور پر ٹکٹ وغیرہ بنوا کر گورکھپور تشریف لے گئے۔ اگرچہ نماز جنازہ میں شرکت نہیں ہوسکی مگر مولانا کے صاحب زادگان مفتی محمد حذیفہ امام اور اسامہ امام وغیرہ سے تعزیت کی، قبرستان گئے ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کی۔
اسی طرح پچھلے رمضان میں مجھے میسیج کیا کہ معراج بھائی (معروف" میری بھائی") گورکھپور کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے عید کے فورا بعد تعزیت کے لئے جانا ہے ، میں نے عرض کیا کہ میں تو بیمار ہوں اور ڈاکٹروں نے سفر سے منع کیا ہوا ہے اس لئے آپ کسی ہمراہی کا نام اور عمر بتادیں تاکہ ٹکٹ بنواسکوں ، چنانچہ آپ ایک خادم کے ہمراہ عید الفطر کے بعد معراج بھائی سے تعزیت کے لئے گورکھپور گئے حالانکہ آپ خود ماہ رمضان میں بیمار تھے۔
بارہا ایسا ہوا کہ آپ خود بخار وغیرہ میں مبتلا ہیں مگر کسی کی عیادت یا تعزیت کے لئے تشریف لے گئے۔ اگر زیادہ ہی کوئی عذر ہوا تب مجھے یا کسی اور کو بھیج دیتے تھے کبھی کبھی پورا وفد ہی بھیج دیتے تھے۔
(جاری ہے)
-----------
0 تبصرے