65a854e0fbfe1600199c5c82

تدبر عملی

 قریب قریب آ جائیں، آج گذشتہ کل کی آیت میں "تدبر عملی" کرتے ہیں یعنی اپنے عمل اور زندگی کےلیے کچھ ہدایات، کچھ جملے اور کچھ نصیحتیں تلاش کرتے ہیں۔


زلیخا نے جب حضرت یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی تو جواب میں انہوں نے کہا تھا:


مَعَاذَ اللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ رَبِّىٓ اَحْسَنَ مَثْوَاىَ


اللہ کی پناہ! وہ میرا آقا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔


اس آیت میں تدبر عملی کے نتیجہ میں چند نکات معلوم ہوئے۔


1: جو اللہ کی پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالی آگے بڑھ کر اُسے اپنی رحمت میں لے لیتے ہیں۔


2: آپ کا اصل امتحان خلوت کا ہوتا ہے کہ جب کوئی دیکھنے والا نہ ہو، گناہ کا ماحول گرم ہو، پھر بھی آپ سچے دل سے اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں تو آپ کو ربِ محبت مُخلِصین میں سے بنا دیتا ہے۔


3: جب آپ کو محسوس ہو کہ میرے لیے گناہ سے بچنے کے تمام راستے مَسْدُود (یعنی بند) ہوچکے ہیں تو یاد رکھنا ایک راستہ آپ کے دل سے اللہ کی پناہ کی طرف کُھل رہا ہوتا ہے، وہاں سے ربِ محبت کی طرف نکل جانا، قدم اٹھانا تمہارا کام ہے، باہر اپنے رب کو انتظار کرتا پاؤ گے۔


4: جب فتنوں کے سیلاب میں بہہ جانے، نفس و ھوی کی اتباع میں غرق ہو جانے کا خوف ہو تو "معاذ اللہ" کا سہارا لے لینا۔


5: اسی جملے کے بعد حضرت یوسف نے کہا تھا کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ اگر فلاح ، کامیابی اور وَدُوْد رب کے دربار میں سرخروئی چاہتے ہو تو نجاستوں کے ماحول میں "معاذ اللہ" کا نعرہ بلند کرو اور بھاگ کھڑے ہو۔


6: جس نے آپ سے زندگی کی کسی بھی موڑ پر چھوٹا یا بڑا احسان کیا ہو، اس سے کبھی خیانت نہ کرنا، اس کو کبھی دھوکہ نہ دینا، کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ اس کا سر شرم سے جھک جائے۔ احسان فراموشی ظالم لوگوں کا شیوہ ہے اور ظالمون فلاح نہیں پاتے۔


7: بدکاری کرنے والے زمانے میں رُل جاتے ہیں۔قیامت کے دن ان کی پیشانیوں پر بدکاری کے ٹیگ لگے ہوں گے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔


8: حضرت یوسف جانتے تھے کہ آج اگر تنہائی میں برائی کر لی تو کل یہی برائی شہر میں پھیل چکی ہوگی۔ نفسانی خواہشات کی برائیاں تنہائی سے شروع ہوتی ہیں اور بدنام کر کے چھوڑتی ہیں۔ زلیخا نے تنہائی میں پھسلانے کی کوشش کی لیکن ایک وقت آیا جب شہر کی سب عورتیں زلیخا کے بارے میں تبصرے کر رہی تھیں کہ اس نے اپنے پاکدامن غلام کو ورغلایا۔ پہلے قدم ہی پر رک جاؤ ورنہ زمانہ میں ذلیل ہو جاؤ گے۔


9: " ھیت لک" زیب و زینت اختیار کرنے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے یعنی اے یوسف ! میں نے اپنے آپ کو تیرے لیے تیار کیا ہے۔ لیکن یوسف اپنے آپ کو اللہ کےلیے تیار کیے بیٹھے تھے۔ ہمیں معصیت کے بجائے طاعت کےلیے تیار رہنا چاہیے۔


10: گناہ کے مواقع کو سوچے بغیر فوراً سے جھٹک دینا چاہیے۔ جب آپ گناہ کو سوچنا شروع کر دیتے ہیں تو شیطان اس کو جواز فراہم کرنے لگ جاتا ہے اور نفس آپ کے باطنی جذبات کو ابھارنے لگتا ہے۔ یہاں اگر آپ غور کریں تو حضرت یوسف نے بغیر رکے اور بات کو طول دیے فوراً سے معاذ اللہ کہا اور باہر نکل آئے۔


11: حضرت یوسف کے چہرہ کی معصومیت عزیز مصر پر بھی واضح تھی، اس لیے اس نے زلیخا کو کہا کہ تم عورتوں کا مکر بہت بڑا ہے۔اے زلیخا! اپنے رب سے توبہ کر۔ 


جب آپ گناہ سے بچتے ہیں تو آپ کا باطن مصروفِ عبادت ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں آپ کا چہرہ معصومیت کا پیکر بن جاتا ہے۔ 


12: یہاں قرآن نے زلیخا اور یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو دو تین جملوں میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ ورغلانے کےلیے زلیخا نے کیا کیا ہوگا؟ اس کو تفصیل سے بیان نہیں کیا کیونکہ کسی برائی کا لمبا ذکر اور مکمل تصویر کشی بھی انسان کو برائی میں مبتلا کر سکتی ہے۔ 


13: زلیخا کو اپنے شوہر کی عزت کی پرواہ نہیں تھی حالانکہ عزیز مصر نے اسے پورا محل دے رکھا تھا اور وہ شوہر کے احسانات تلے دبی ہوئی تھی لیکن یوسف علیہ السلام نے صرف ایک احسان کے بدلے بھی محسن کی عزت کا دھیان رکھا۔


 کچھ لوگ آپ کی زندگی میں ہزاروں احسانات کو ایک منٹ میں بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں تو اس بندے سے کچھ خیر نہیں ملی اور کچھ لوگ آپ کے ایک ادنی سے احسان کو بھی زندگی بھر یاد رکھتے ہیں ۔ بس نسل کا نسل فرق ہوتا ہے۔


14: زلیخا کی زبان سے نکلنے والا جملہ شہوت اور خیانت سے بھرپور تھا جب کہ یوسف علیہ السلام کی زبان سے نکلنے والا جملہ عفت اور وفا کی کتھا سنا رہا تھا۔ مخلص لوگ نہ اپنی عزت و عفت داؤ پر لگاتے ہیں اور نہ اپنی یاریاں ٹوٹنے دیتے ہیں۔ وہ سر تا پا وفا ہی وفا ہوتے ہیں۔ 


15: زلیخا نے جو کچھ کیا وہ اس کی جسمانی تربیت کا اثر تھا اور یوسف علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ ان کی روحانی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اپنی اولاد اور ماتحت لوگوں کی ظاہر سے زیادہ روحانی تربیت کی فکر کرو کہ وہ گناہ سے بچ سکیں۔


16: حضرت یوسف کے معاذ اللہ والے الفاظ ہمیں سبق دے رہے ہیں کہ کبھی بھی اپنے ایمان و یقین پر بھروسہ مت کرو کہ میں تو متقی ہوں، میں نے اگر کسی لڑکی یا لڑکے سے میسج پر فضول بات کر بھی لی تو کوئی بات نہیں، میرا ایمان اور میرا نفس کنٹرول میں ہے۔ معاذ اللہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اللہ کی مدد، توفیق ، عنایت اور پناہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ بس اُسی سے دعا ہے کہ وہ مجھے برائی میں گرنے سے بچائے۔


17: کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں نہ کرنے سے ہی آپ اللہ اور اس کی مخلوق کی نظروں میں قیمتی بن سکتے ہیں۔ ہر کام کرنے کا نہیں ہوتا۔


18: حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کو بچپن میں پہلی بات ہی یہ بتائی تھی کہ بیٹا! اللہ نے آپ کو ایک خاص ٹیلنٹ دے کر بڑے مقصد کےلیے چنا ہے۔ آپ نے کبھی اس مقصد پر کمپرومائز کر کے خسیس اور گھٹیا چیزوں کی طرف نہیں جانا۔اسی تربیت کا اثر ہے کہ آج یوسف اپنے آپ کو عیب دار چیز سے بچا رہے ہیں۔ 


ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کی اتنی فکر رکھیں کہ وہ کسی گھٹیا اور خسیس حرکت کی طرف نہ جانے دے۔ اور یہی چیز اپنے بچوں میں پیدا کریں۔ جب مقصد اور ہدف عظیم ہو تو انسان چھوٹی اور عیب دار چیزوں کے چکر میں نہیں پڑتا۔ 


19: یہاں زلیخا کی ایک واردات "بار بار پھسلانے" کا ذکر ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہمیں بدکاری کے ذریعے پی پھسلایا جا رہا ہو، ہمیں عقیدہ میں شبہات و شکوک، عہدوں مں رشوت و سود، باتوں میں تہمت و جھوٹ، گھروں میں تنازُع و شُرور، بازاروں میں دھوکہ و غبون اور تمام شعبہ ہاے زندگی میں مختلف چھوٹے بڑے فسق و فُتون کے ذریعے پھسلایا جاسکتا ہے۔ بس ہر موقع پر کہتے جائیں:


مَعَاذَ اللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ رَبِّىٓ اَحْسَنَ مَثْوَاىَ


اللہ کی پناہ! وہ میرا رب ہے، اس نے مجھے اچھی طرح ٹھکانہ دے رکھا ہے۔


محمد اکبر

28 مئی 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے