65a854e0fbfe1600199c5c82

دس غیر ثابت روایات

 


🔬 دس غیر ثابت روایات 🔬


عوام میں بہت سی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی دس غیر ثابت روایات ملاحظہ فرمائیں:

*روایت 1️⃣:* جب حضور اقدس ﷺ معراج کی رات آسمانوں کے اوپر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے میرے محبوب! میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟ تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: میں ایک ایسا تحفہ لایا ہوں جو آپ کے پاس بھی نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ایسا کونسا تحفہ لائے ہو جو میرے پاس بھی نہیں ہے؟؟ تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: میں عاجزی لے کے آیا ہوں! 


*روایت 2️⃣:* فقر میرا فخر ہے اور میں اسی پر فخر کرتا ہوں۔

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى:

320- حَدِيثُ: «الْفَقْرُ فخري، وَبِه أفتخر»: قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ: هُوَ بَاطِلٌ مَوْضُوعٌ، وَقَالَ ابْنُ تَيْمِيَّةَ: هُوَ كَذِبٌ.


*روایت 3️⃣:* ایک صحابی نے حضور اقدس ﷺ سے اپنے گھر کی بے برکتی کی شکایت کی، تو حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ: اپنے گھر کے دروازے پر پردہ لٹکاؤ۔ چنانچہ اس کے بعد وہ صحابی چند دنوں بعد تشریف لائے اور فرمایا کہ گھر کے دروازے پر پردہ لٹکانے سے میرے گھر سے بے برکتی ختم ہوچکی ہے۔ تو حضور ﷺ نے حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: تمہارے گھر کے راستے سے ایک بے نمازی شخص گزرا کرتا تھا جس کی نگاہ تمہارے گھر کے اندر پڑ جاتی تھی، اسی کی نحوست سے تمہارے گھر میں بے برکتی آجاتی تھی، اب پردہ لٹکانے کے بعد اس کی نگاہ گھر میں نہیں پڑتی اس لیے وہ بے برکتی ختم ہوچکی ہے۔


*روایت 4️⃣:* جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں تو فرماتے ہیں: ’’کُنْ‘‘ یعنی ہوجا، تو لفظِ ’’کُنْ‘‘ کے کاف اور نون کے آپس میں ملنے سے پہلے ہی وہ کام ہوجاتا ہے۔ 

☀️ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

202- حَدِيث عَنِ اللَّوْحِ سَمِعْتُ اللهَ مِنْ فَوْقِ الْعَرْشِ يَقُولُ لِلشَّيْءِ: كُنْ، فَيَكُونُ، فَلا تَبْلُغُ الْكَافُ النُّونَ إِلا يَكُونُ الَّذِي يَكُونُ. مَوْضُوعٌ بِلا شكّ.


*روایت 5️⃣:* جس نے اپنے آپ کو یا اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

☀️ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

349- حَدِيثُ: «مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ» قَالَ ابْنُ تَيْمِيَّةَ: مَوْضُوعٌ.


*روایت 6️⃣:* جو مسلمان اپنی بیوی سے اس نیت سے صحبت کرے کہ اگر اس سے حمل ٹھہر گیا تو اس کا نام محمد رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو بیٹا عطا فرمائیں گے۔ 

☀ تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة:

(14)- [حَدِيثٌ] «مَا مِنْ مُسْلِمٍ دَنَا مِنْ زَوْجَتِهِ وَهُوَ يَنْوِي إِنْ حَمَلَتْ مِنْهُ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا إِلا رَزَقَهُ اللهُ تَعَالَى ذَكَرًا، وَمَا كَانَ اسْمُ مُحَمَّدٍ فِي بَيْتٍ إِلا جَعَلَ اللهُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ بَرَكَةً»: (ابْن الْجَوْزِيّ:) من حَدِيث مسور بن مخرمَة، وَقَالَ: لَا يَصح، فِيهِ سُلَيْمَان بن دَاوُد مَجْرُوح، وَشَيْخه عَبْثَر بن الْحسن مَجْهُول، وَيحيى بن سليم الطايفي لَا يحْتَج بِهِ. (قلت:) قَالَ الذَّهَبِيّ فِي «تلخيصه»: حَدِيث مَوْضُوع، وَسَنَده مظلم. وَالله أعلم.


*روایت 7️⃣:* جب کوئی شخص ’’لا الٰہ الّا اللّٰہ‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ کی وجہ سے ایک فرشتہ یا پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی ستر ہزار زبانیں ہوتی ہیں اور ہر زبان میں ایک ہزار بولیاں ہوتی ہیں، وہ فرشتہ یا پرندہ ان سب زبانوں اور بولیوں میں اس بندے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے۔ 

☀ كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس:

ومن الأحاديث المكذوبة على رسول الله ﷺ حديث: «من قال لا إله إلا الله خلق الله من كل كلمة طائرا له سبعون ألف لسان في كل لسان سبعون ألف لغة يستغفرون الله تعالى له».


*روایت 8️⃣:* ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو۔

☀ فی حاشیة قيمة الزمن عند العلماء:

هذا الكلام: «طلب العلم من المهد إلى اللحد» ويحكى أيضا بصيغة: «اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد»: ليس بحديث نبوي، وإنما هو من كلام الناس، فلا تجوز إضافته إلى رسول الله ﷺ كما يتناقله بعضهم؛ إذ لا ينسب إلى رسول الله ﷺ إلا ما قاله أو فعله أو أقره. وكون هذا الكلام صحيح المعنى في ذاته وحقا في دعوته: لا يسوغ نسبته إلى النبي ﷺ. قال الحافظ أبو الحجاج الحلبي المزي: «ليس لأحد أن ينسب حرفا يستحسنه من الكلام إلى رسول الله ﷺ وإن كان ذلك الكلام في نفسه حقا، فإن كل ما قاله الرسول ﷺ حق، وليس كل ما هو حق قاله الرسول ﷺ». (تحت: «أبو يوسف ساعة موته يباحث في مسألة فقهية»)


*روایت 9️⃣:* جَنَّتی جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ : کیا تمہیں جنت کی تمام نعمتیں مل چکی ہیں؟ تو جنتی کہیں گے کہ جی ہاں! تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ایک بڑی نعمت باقی ہے۔ تو جنتی اپنے علماء کرام سے پوچھیں کہ کونسی نعمت باقی ہے؟ تو علما ءکرام فرمائیں گے کہ: اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت باقی ہے۔ 

بعض لوگ یہ روایت یوں بیان کرتے ہیں کہ: جَنَّتی جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے، وہ اس طرح کے اہلِ جنت ہر جمعہ کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے: مانگو جو مانگنا ہے۔ تو جنتی اپنے علماء کرام سے پوچھیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے کیا مانگیں؟ تو اہلِ علم جواب دیں گے کہ فلاں فلاں نعمت مانگو۔ 

☀️ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

53- حَدِيثُ: «إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَحْتَاجُونَ إِلَى الْعُلَمَاءِ فِي الْجَنَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ يَزُورُونَ اللهَ فِي كُلِّ جُمُعَة فَيَقُول: تمنوا عَليّ ماشئتم، فَيَلْتَفِتُونَ إِلَى الْعُلَمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَاذَا نَتَمَنَّى عَلَى رَبِّنَا؟ فَيَقُولُونَ: كَذَا وَكَذَا» ذُكِرَ فِي «الْمِيزَانِ» أَنه مَوْضُوع.


*روایت 🔟:* جس علاقے میں دین کی محنت کے لیے گشت ہوتا ہے تو وہاں سے چالیس دن تک کے لیے عذاب اُٹھا لیا جاتا ہے۔


⬅️ *تبصرہ:* 

مذکورہ دس روایات کا حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام سے کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 


▪ *فائدہ:* واضح رہے کہ جن جن روایات سے متعلق حضرات اہلِ علم کی تصریحات میسر آئیں کہ یہ روایات ثابت نہیں تو ان کے بارے میں ان حضرات کی عبارات ذکر کردی گئی ہیں، جن سے اُن روایات کا حکم بخوبی واضح ہوجاتا ہے، باقی جن روایات سے متعلق ایسی صراحت نہیں ملی تو ان کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا ہے، البتہ وہ بھی غیر ثابت ہی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے آگے ذکر کی جارہی ہے۔


❄️ *احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:*

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے:

1️⃣ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «...وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


📿 *غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:*

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی ٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


❄️ *ایک اہم نکتہ:*

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

4 ربیع الثانی 1442ھ/ 20 نومبر 2020 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے