65a854e0fbfe1600199c5c82

حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام

 حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالا گیا تو حضرت موسی کو بھی پانی میں ڈالا گیا۔


حضرت یوسف مصر میں تھے تو حضرت موسی بھی مصر میں تھے۔


حضرت یوسف نے محل میں زندگی گزاری تو حضرت موسی نے بھی فرعون کے محل میں پرورش پائی۔


حضرت یوسف کو اٹھانے والوں کی بھی اولاد نہیں تھی اور حضرت موسی کو اٹھانے والوں کی بھی اولاد نہیں تھی۔ 


حضرت یوسف کو اٹھانے والوں نے بھی کہا:


عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا

کچھ بعید نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ (سورت یوسف: 21)


حضرت موسی کو اٹھانے والوں نے بھی کہا:


عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا

کچھ بعید نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ (سورت قصص:9)


حضرت یوسف کو اٹھانے والوں کے بارے میں کہا:


لَا یَعْلَمُوْنَ

وہ جانتے نہیں 


حضرت موسی کو اٹھانے والوں کے بارے میں بھی کہا:


لَا یَشعُرُون

انہیں انجام کا پتہ نہیں۔ 


حضرت یوسف کے بھائیوں نے کہا:


اقْتُلُوْا یُوْسُفَ

یوسف کو قتل کر ڈالو۔ 


حضرت موسی کے بارے میں فرعون نے کہا:


ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى

مجھے چھوڑو تاکہ میں موسی کو قتل کر دوں۔ (سورت قصص:26)


یوسف کے بھائیوں نے ایک چال چلی اور وہ ناکام ہوئی ۔


فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدً

(اے یوسف!) وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے۔ 


موسی کے خلاف بھی پرورش کرنے والوں نے چال چلی اور ناکام ہوئی:


وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

اور کافروں کی چال کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ مقصد تک نہ پہنچ سکیں۔ 


حضرت یوسف کو بھی جیل میں ایک دوست مل گیا تھا جو بعد میں جیل سے نکالنے کا سبب بنا۔ حضرت موسی کو بھی ایک دوست مل گیا تھا جو مصر سے مدین کی طرف نکالنے کا سبب بنا۔ 


حضرت یوسف کے بارے میں کہا کہ ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا تھا، حضرت موسی کے بارے میں بھی کہا کہ ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا تھا۔


حضرت یوسف کو حسن دے کر اور حضرت موسی کو طاقت دے کر آزمایا گیا۔ 

 


اتنی گہری مناسبت کے باوجود جب حضرت موسی نے فرعون اور اس کے ماننے والوں کو دعوت دی تو انہوں نے کہا:


مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ

اور ہم نے یہ بات پچھلے باپ دادوں میں نہیں سنی۔ (قصص: 36)


فرعونیوں کی اس بات سے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سچ بول رہے ہوں اور واقعی انہیں کچھ پتا نہ ہو اور ان کے باپ دادوں میں کوئی نبی نہ آیا ہو۔ 


لیکن سورت مومن کی آیت نمبر 34 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ موسی علیہ السلام پر ایمان لانے والے ایک شخص نے فرعونیوں سے کہا:


وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ


اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے یوسف تمہارے(آباء و اجداد) کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے۔ تب بھی تم ان کی لائی ہوئی باتوں کے متعلق شک میں پڑے رہے۔ پھر جب وہ وفات پا گئے تو تم نے کہا کہ ان کے بعد اللہ اب کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ان تمام لوگوں کو گمراہی میں ڈالے رکھتا ہے جو حد سے گذرے ہوئے، شکی ہوتے ہیں۔


سبحان اللہ ! 


کیا ہی خوبصورت انداز ہے! 

کیا ہی خوبصورت تدبیر ہے ہمارے رب کی!

 کیا ہی عمدہ طریقے سے قافلہ خیر کی کڑیاں جڑتی ہیں! 


وقت محدود ہے، قرآن سمندر ہے، موتی بے شمار ہیں، کیسے اور کس کس پہلو سے قرآن میں غور کریں؟ کاش دنیا میں اور کوئی مصروفیت نہ ہوتی، بس صرف رب کے کلام میں غور و فکر کرنا ہوتا۔ 


اے قرآن اتارنے والے کریم رب! جنت میں ہمیں ضرور اپنے کلام کے مفاہیم سمجھائیے گا تاکہ ہم اس بحر ناپیدا کنار سے سیراب ہو سکے۔ 


محمد اکبر

14 فروری 2024

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے