65a854e0fbfe1600199c5c82

نیت کی پاکیزگی اور ایمان و احتساب

 آج اپنے محلہ کی مسجد میں جمعہ کا بیان طے ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد سے بعافیت مکمل ہوا۔ 


بیان کا عمود "نیت کی پاکیزگی اور ایمان و احتساب" تھا۔ جس میں اس بات کی صراحت کے ساتھ وضاحت کی گئ کہ نیت ہی کی بناء پر ہی آخرت میں جزا سزا ہوگی۔ اسی نیت کی خرابی کی بناء پر بعض خالص دینی نظر آنے والے اعمال، آخرت میں پکڑ کا ذریعہ ہوں گے۔ اور اسی نیت کی خوبی کی بناء پر خالص دنیوی نظر آنے والے اعمال، آخرت میں نجات کا ذریعہ ہوں گے۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جو دنیا کی مذمت و برائی بیان کی گئ ہے۔ اس سے دنیا کی صورت مراد نہیں؛ بلکہ دنیا کی حقیقت مراد ہے۔ اور دنیا کی حقیقت ہے؛ "حبِ جاہ و حبِ مال"۔ اب جہاں کہیں یہ غلاظتیں پائی جائیں گی وہ اعمال دنیا بن جائیں گے، چاہیں ان کی صورت دینی ہوں؛ تبلیغ ہو، تدریس ہو، تصنیف ہو، وعظ و خطابت ہو یا افتاء کی خدمت؛ سبھی کچھ آخرت میں عذاب کا ذریعہ ہوں گے جیسا کہ حدیث شریف میں اس کی صراحت کی گئ ہے۔


اور اگر کچھ اعمال ظاہری اعتبار سے دنیوی ہوں جیسے دکان کھولنا، مزدوری کرنا، روزگار بہم پہنچانے کی کوشش کرنا؛ اگر ان میں نیت کی تصحیح کرکے امانت داری کے ساتھ کام کیا جائے، تو آخرت میں یہی اعمال اس بندہ کے آخرت میں انبیاء و صدیقین کی ساتھ میں کھڑے ہونے کا سبب ہوں گے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے۔


ایمان و احتساب پر کلام کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی گئ کہ صبح سے شام تک جتنے دینی اعمال ہیں، ہم انہیں روٹین کی بناء پر کرتے ہیں، ان پر وارد شدہ اجزیہ کا یقین نہیں یا یقین ہے تو استحضار نہیں۔ جس کی وجہ سے اعمال پھسپھسے ہوتے جارہے ہیں۔ جیسے عشاء اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے باوجود ہمیں اس بات کا استحضار نہیں ہوپاتا کہ صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو عشاء و فجر کی نماز جماعت سے ادا کرلے وہ ایسا ہے جس نے ساری رات قیام الیل یعنی نماز پڑھی ہو۔


اس کے بعد ایمان و احتساب زندگی میں نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وجہ اس کی زندگی کا نافرمانی سے آلودہ ہونا ہے۔ شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ فرائض کے ساتھ نوافل پڑھاکر "بزرگی" کی خوش فہمی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اور گناہ اسی کے ساتھ ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اس کو زندگی سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔


آخر میں ایمان و احتساب حاصل کرنے کے طریقہ بیان کیا گیا کہ اس کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ کاملین فی الحال، راسخین فی العلم کی صحبت ہے۔ ان کی معیت کی بناء پر یہ صفت جالسین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ 

دوسرا طریقہ ہے عظمت احترام کے تلاوتِ کلام اللہ شریف۔ اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی عالم سے مشورہ کرکے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کو شب و روز کے اعمال میں شامل کیا جائے۔

وآخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔


سوید

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے