65a854e0fbfe1600199c5c82

اذان کی عظمت اور اس کے تئیں ہماری غفلت

 

"اذان کی عظمت اور اس کے تئیں ہماری غفلت"


اذان ،ایک ایسی پکار ہے جو دن بھر میں 5 دفعہ اللہ کے بندوں کو مسجد میں نماز با جماعت کے لئے پکاری جاتی ہے اور جسے سن کر اللہ کا سچا اور پکا بندہ دوڑا ہوا مسجد چلا آتا ہے. 

یہ وہ اذان ہے جس کے تعلق سے یہ کہا گیا ہے کہ جب اذان پکاری جائے تو سارے کام کاج چھوڑ کر اذان کے احترام میں خاموش ہوجاؤ اور اذان کا جواب دو، حتی کہ اذان کی آواز سن کر اس کے جواب دینے والے کے لیے بہت ساری فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، 

لیکن آج ہم مسلمان بھی اذان کا اتنا احترام نہیں کرتے ہیں جنتا احترام حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والے ایک بھارتی کا قومی ترانہ کے وقت ہوتا ہے، اذان دنیا بھر میں پکاری جانے والے ساری نداؤں اور صداؤں میں سب سے با وزن اور قابلِ احترام صدا(کلمات) ہے، یہ اسلام کے اہم شعار میں سے ہے، توحید باری تعالیٰ کا عام اعلان ہے، یہ عظیم دعوت ہے، مسنون عمل ہے، محبوب عمل ہے، مقبول عمل ہے، نجات و مغفرت کا ذریعہ ہے، حق کی آواز ہے، قابلِ احترام ہے۔۔مگر آج ہماری اور تمام مسلمانوں کی اس سلسلہ میں جو غفلت و کوتاہی ہے وہ جگ ظاہر ہے کہ اذان نہ تو ہم بغور سنتے ہیں اور نہ ہی اس کے معانی و مفاہیم پر ہمیں غور کرنے کی توفیق ہوتی ہے، بس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض عربی کے چند جملے ہیں جو نماز کے لئے لوگوں کو اطلاع کرنے کا ایک ذریعہ ہے جبھی تو مسلمانوں کی اکثریت اذان کا عملی جواب نہیں دیتی ہے، یعنی اذان سن کر نماز کے لئے مسجد کی طرف ان کے قدم نہیں اٹھتے ہیں اور وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی تو کرتے ہیں مگر اذان کے کلمات اور اس کے معانی و مفاہیم تک سے واقف نہیں ہوتے یا اگر ہوتے بھی ہیں تو اذان کا جواب نہیں دیتے ہیں، اگر ہم اذان کے سیکھنے کو بھی ایسے ہی اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں جس طرح ہم اپنی ضرورت بھر انگریزی از خود ہی سیکھ لیتے ہیں تو پھر ان شاءاللہ ہماری زندگی میں ضرور مثبت تبدیلی آۓ گی، اور یہ جو غیروں کی طرف سے اذان کے خلاف بار بار تنازع کھڑا کیا جاتا ہے اس کا سلسلہ بھی ان شاءاللہ ختم ہوجائے گا (یاد رکھیں اغیار انہیں عمل کو ٹارگٹ کرتے ہیں جنکی ہم قدر نہیں کرتے) اور ایک بات یہ کہ بہت سے مدارس کے فضلاء بھی جن میں بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم از کم بنیادی تجوید سے واقف ہوتے ہی ہیں مگر پھر بھی وہ زندگی میں کبھی اذان کو یا تو سیکھتے نہیں ہیں یا کبھی اذان دینے کی نوبت نہیں آتی ہے جس کی وجہ سے اگر کبھی اچانک انہیں اذان پکارنے کی ضرورت آن پڑتی ہے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، آخر کیوں؟ 

آپ امامت کو باوقار سمجھتے ہیں مگر اذان پکارنے میں عار کیوں محسوس کرتے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ 

میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ لوگ امامت کو تو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں مگر اذان پکارنے میں انہیں جھجھک ہونے لگتی ہے۔۔ 

آپ دینی رہبر ہیں آپ کی جانب سے کوئی منفی پیغام نہیں جانا چاہیے، امامت کا کسی درجہ عوام میں بھی وقار ہے کہ وہ امامت کے لئے عموماً علماء کو ہی ترجیح دیتے ہیں مگر اذان کا انکے یہاں بھی کوئی معیار نہیں ہے جو جتنا بڑا بھٹ جاہل ہوتا ہے عام طور سے وہی ہمارا مؤذن ہوتا ہے الا ماشااللہ! 

یہ باتیں میں ہے اب تک کے اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے سے لکھ رہا ہوں، آخر ایسا کیوں؟ 

اس لئے مدارس کے ذمہ داران سے دردمندانہ اپیل ہے کہ آپ خود اس بات کا نوٹس لیں اور جس طرح امامت کے لئے مدارس سے افراد تیار کئے جاتے ہیں ، آپ ایسی تعلیم و تربیت دیں کہ مدارس کے فضلاء اذان و اقامت کی خدمت کے لئے بھی دل سے تیار ہوں، اگر آپ اذان پکارنے کو عار سمجھیں گے تو یاد رکھیں کہ پھر ایسے جہلا مؤذن ہوں گے جنہیں تجوید کی "ت" سے بھی واقفیت نہیں ہوتی اور سُر تو ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ! 

اور پھر اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے، آپ اور صرف آپ! 

آپ کے عمل سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ کوئی معمولی چیز ہے بلکہ جس طرح آپ نے امامت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور کم تنخواہ پر گزارا کیا ہے خدارا آپ الگ سے چھوٹے موٹے کام کر لیجئے مگر آپ اذان و اقامت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیجئے ان شاءاللہ پھر آپ کی اس لائن کی قربانی بھی اور ٹھوڑے پر اللہ پاک کی رضامندی کی خاطر اکتفا کرنا ان شاءاللہ یہاں بھی مقبولِ عام و خاص ہوگا اور آپ کو دونوں جہان کی سرخروئی حاصل ہوگی اور پھر رفتہ رفتہ یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے ان شاءاللہ! 

ائمہ کرام کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گاؤں محلے کے چند نوجوانوں کو قرآن کریم سکھانے کے ساتھ ساتھ اذان و اقامت بھی سکھلائیں!


شکریہ 


محمد کامل رشید

متعلم بصیرت جرنلزم اینڈ لینگویج اکیڈمی ممبئی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے