65a854e0fbfe1600199c5c82

معروف عالم دین اور صاحب قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نوراللہ مرقدہ



مدتوں بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی


✍️عمیر الہی عثمانی دیوبند

رابطہ:9897880350


حضرت الاستاذ معروف عالم دین اور صاحب قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نوراللہ مرقدہ

بے شک وہ زیر زمیں آسودہ خواب ہو گئے

لیکن ان کے خیالات خاص انداز و ادا کی حسین و پاکیزہ یادیں ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں

جنہوں نے اپنی خوبصورت تحریروں سے گزشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں میں نام روشن کیا اور اکیسویں صدی میں بھی ان کا قلم جلوہ بکھیرتا رہا، حسین ترین الفاظ، خوبصورت جملے، دلکش عبارتیں، عمدہ تعبیرات،

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اردو کے ان خوش نصیب اصحاب قلم میں ممتاز مقام رکھتے تھے جو کم از کم 25 30 برس سے مسلسل لکھ رہے تھے اور اپنی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر اعتماد و اعتبار کی دولت حاصل کر چکے تھے ان کے یہاں خیالات کی پختگی زبان کی روانی اور ادب کی چاشنی کا خوبصورت امتزاج تھا،ان کے مضامین گہری فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے تھے زبان کی لطافت اور فکر کی سلامتی ان کی افادیت میں چار چاند لگا دیتی تھی

حضرت شاہ صاحب کا ہمیشہ سے یہ مزاج رہا کہ ہر صاحب علم و فن سے کچھ نہ کچھ سیکھتے، اس لیے آپ کی تحریروں میں حد درجہ توازن تھا۔ مولانا مرحوم ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، جب بھی کسی سے ملاقات کرتے خندہ زن ہو کر پیش آتے، ہمیشہ چہرے سے بشاشت جھلکتی، مولانا کی شخصیت میں حد درجہ تواضع اور سادگی تھی، سادہ اور عام لباس پسند کرتے ، سردیوں میں شیروانی زیب تن فرماتے، ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے، بڑوں اور چھوٹوں کو سلام کرتے اپنے شناسا سے خیر خیریت دریافت فرماتے، لوگوں کو دعائیں دیتے، حوصلہ دلاتے، طلبہ سے ہمیشہ دوستانہ تعلق رکھتے۔ مولانا مرحوم کو قلم و قرطاس اور تقریر و خطابت کا ملکہ وراثت میں ملا تھا۔ آپ دوران تقریر نشیب و فراز سے اس آسانی کے ساتھ گذرتے کہ سننے والا مسحور ہو جاتا، مختلف موضوعات پر کلام کرتے اور کامل کلام کرتے ، سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے خطبات کا انداز بڑا والہانہ اور دلکش تھا، سیرت کے ہر ہر پہلو کا حسب موقع اور بر محل ذکر کرتے ،تقریر میں اتنی چاشنی اور جماؤ تھا کہ تقریر لمبی ہونے کے باوجودلوگ اکتاہٹ کے شکار نہیں ہوتے تھے، سامعین ہمہ تن گوش رہتے اور ان کی توجہ آپ کی جانب رہتی ، آپ گھنٹوں گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرتے۔ ایسے ہی آپ کی تحریر کا معاملہ تھا، آپ تحریر میں اسلوب و ادا کا ایک شاہکار اور زبان و بیان کا در شاہوار تھے، آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں پختہ کار صاحب قلم کی تحریروں کی شان رکھتی تھیں، شگفتہ اور شاداب انداز ، شیرینی اور حلاوت سے بھر پور ، پڑھنے والے کے ذہن پر فوری اثر انداز ہونے والی ، جو پڑھے اس احساس کے ساتھ پڑھے کہ وہ اردو کے نامور اور شہرہ آفاق صاحب قلم کی تحریروں سے استفادہ کر رہا ہے۔

حضرت الاستاذ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ مشہور زمانہ ادیب مولانا ازہر شاہ قیصر کے فرزند ارجمند، خاتم المحدثین حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری کے پوتے، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری کے بھتیجے ہونے کے ساتھ ساتھ خانوادہ انوری کے چشم و چراغ، مشہور انشاء پرداز، بہترین خاکہ نگار، تقریباً دو درجن مقبول چھوٹی بڑی ادبی کتابوں کے مصنف، دارالعلوم وقف کے ہر دلعزیز استاذ، طلبۂ کے تئیں مشفق، اساتذہ کے محبوب نظر، دیوبند اور دیوبند کے باہر ادبی حلقوں میں ممتاز ادیب، دوستوں کے درمیان بے تکلف دوست، انتہائی فیاض، بے نیاز، چاپلوسی و تملق سے متنفر، نہایت سادہ مزاج، پرکشش و دل آویز شخصیت کے مالک، بے جا تکلفات سے پرہیز، تصنع و بناوٹ سے دوری اور بھی بہت سی خصوصیات و صفات کے حامل تھے۔

آپ کی پیدائش 25 اگست 1962 کو مرکز علم و ادب سر زمینِ دیوبند میں ہوئی آپ کے والد گرامی مولانا ازہر شاہ قیصر صاحب محدثِ عصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کے فرزندِ اکبر تھے،

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نور اللہ مرقدہ گہرے علمی رسوخ کے علاوہ سادہ طبیعت اور صاف گو انسان تھے آپ کا انداز یہ تھا کہ مسکراتے یا ہنستے اور پھر بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے آپ کی شخصیت میں بہت سے پہلو بڑے قابلِ رشک اور قابل تقلید تھے خصوصاً صاف گوئی آپ کی زندگی کا اصول تھا، طلبہ کی حوصلہ افزائی اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے نہایت ہی خوش اخلاق، خوش گفتار اور بزرگوں کی یادگار تھے انکی حوصلہ افزائی نے نہ جا نے کتنوں کو قلم پکڑنا بلکہ قلم دوڑانا سکھا دیا بالکل کھلے اور کھرے انسان، اندر باہر بالکل یکساں، زبان و دل میں مکمل ہم آہنگی، اکابر کی ایک ایک بات ازبر، گفتگو کا انداز آبشار جیسا، آواز میں غضب کی چاشنی، بلندی، بر جستگی، مزاج کی تحریر میں بھی شگفتگی، جس طرح آپ کی گفتگو کانوں میں رس گھولتی ویسے ہی آپ کی تحریر دل و دماغ کو معطر کرتی، آپ کی تصانیف "یادگارِ زمانہ تھے یہ لوگ" "کیا ہوئے یہ لوگ" "اور میرے عہد کے لوگ" جسے بار بار پڑھنے کے بعد بھی پھر پڑھنے کی خواہش ہو چھوٹوں کو بڑا بنانے کا عجیب و غریب سلیقہ قدرت نے عطا کیا تھا جن احباب کا ان سے تعلق تھا وہ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے۔

حضرت شاہ صاحب کی چند تحریریں قارئین کے پیش نظر کر کے اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔ شاہ صاحب کی کتابوں میں جگہ جگہ ایسی عبارتیں ملتی ہیں جو قاری کا تعلق براہ راست شخصیت سے قائم کر دیتی ہیں اور قاری کو ایک خاص لذت حاصل ہونے لگتی ہے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب رح تذکرے میں رقم طراز ہیں:

"الفاظ شاہ صاحب کے ارد گرد پروانوں کی طرح پوری وارفتگی ، پورے جذبے کے ساتھ چکر لگاتے ہیں، کب ان کی نظر کرم ہو اور ان کی نوک قلم اور نوک زبان سے ادا ہونے کی سعادت حاصل ہو، علوم کا گنجینہ، معلومات کا خزینہ ان کے مواعظ اور خطبات کی شان ہی نرالی ہے، ابوالکلام آزاد کی سحر انگیز خطابت، عطاء اللہ شاہ بخاری کی گھن گرج، حفظ الرحمن سیوہاروی کا استدلال ، حبیب الرحمن لدھیانوی کی مہارت، شبیر احمد عثمانی کی طلاقت لسانی نے اگر کہیں ٹھکانا بنایا تو وہ شاہ صاحب کی ذات ہے۔‘‘ (میرے عہد کے لوگ)

مولا نا مرحوم کا مطالعہ بلا شبہ وسیع تھا، ان کی تحریروں سے ان کے مطالعہ کی گہرائی اور وسعت ان کے ہر اقتباس سے جھلکتی ہے۔ زبان کی نزاکت اور اس کے بنیادی اسالیب پر ان کی گہری نظر تھی، اس لیے ان کے یہاں حسین جملے، دل موہ لینے والی عبارتیں اور چابک دستی کا اظہار کرتے اقتباسات، ہر مضمون میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں علم و ادب کی سرزمین دیوبند کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’دیوبند کو خداوند عالم نے جن علمی عظمتوں سے سرفراز کیا ہے، وہ تاریخ کا حصہ بھی ہیں، حال کا بیان بھی اور باوقار مستقبل کا آئینہ بھی، یہاں کی خاک سے وہ اہل علم اور مردِ مجاہد پیدا ہوئے جو مسلمانانِ ہند کی زندگی میں بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں،یہ خوش فہمیوں کا ابتلا نہیں،بلکہ حقائق کی وہ روشنی ہے،جو دور تک بہت دور تک بلکہ آخری حدود تک پھیلی ہوئی ہے،اندھیرے سراسیمہ اور خوف زدہ ہیں اور تاریکیاں ان کے قدموں کی چاپ سنتے ہی اپنا راستہ بدل دیتی ہیں، دیوبند کا یہ امتیاز اول دن سے آج تک باقی ہے اخلاص وللّٰہیت کی بستی میں علم و کمال کی آبادی میں اور فکر و نظر کی فصیلوں پر جب تک یہ چراغ جلتے رہیں گے چھ حرفی لفظ "دیوبند" ہمیشہ چمکتا رہے گا۔‘‘ (میرے عہد کے لوگ صفحہ ٧۵)

ایک اور جگہ دیوبند کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’دیوبند جہاں صدق وصفا کے پیمانے چھلکتے ہیں، جس کے دیار میں تقویٰ وللّٰہیت کے نورانی پیکر تراشے جاتے ہیں، جس کی گود میں علم کے دیوانوں، فکر کے سودائیوں کی پرورش ہوتی ہے، جو اہل کمال کو سینے سے لگاتی اور پیشانی کو بوسہ دیتی ہے، جو اصحابِ قلم اور اربابِ ادب کے لئے فرش راہ رہتی ہے، جس کے متن میں دیانت وامانت کا اجالا ہے، جس کے درو دیوار پر نورانیت کی بارشیں ہوتیں اور جو تقدس و پاکیزگی اور رشد و روحانیت کی امین ہے وہ میری بستی ہے جو چہار دانگ عالم میں دیوبند کے نام سے متعارف ہے حقیقی معنی میں وہ مرکز علم ہے، منبع ہدایت ہے، محور دیانت ہے، علوم نبوی کا سر چشمہ ہے، دین کی پاسداری کا مضبوط قلعہ ہے، جرات و عزیمت کی شاہد ہے اور سب سے بڑھ کر یہ خدا رسیدہ انسانوں، انسانیت کے محافظوں، ایمان و عقیدے کے متوالوں کی بستی ہے جس نے اپنی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں رہنمائی اور رہبری کی ہر سمت میں روشنی بکھیری ہے۔‘‘ (میرے عہد کے لوگ صفحہ ١٠٩)

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے قارئین کو کیسے عمدہ انداز میں تعارف کراتے ہیں دیکھئے ذرا:

’’دار العلوم نے جو با کمال افراد اور اشخاص پیدا کئے ہیں ان کی خدمات، ان کی قابل قدر کوششوں ، ان کے نمایاں کارناموں کا سفر کافی طویل ہے اور اس سفر میں بے شمار لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، چھوٹے بھی بڑے بھی صاحب علم بھی اور صاحب نسبت بھی ، صاحب لسان بھی اور صاحب قلب بھی، تمام خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ حضرت کی ذات تھی، قلم ان کا ایسا جس موضوع کو اختیار کرے اس کے اطراف و جوانب اور گرد و پیش کا مکمل احاطہ کرتا ، تحریر بڑی شستہ، جاذب نظر اور پر کشش تھی، استدلال اور اعتدال کے ساتھ بڑی چابک دستی اور مہارت کے ساتھ آگے بڑھتے ، پوری تحریر اپنی معنوی اور صوری خوبصورتی کا احساس دلاتی ، بات کہنے اور ادا کرنے کا جو ملکہ ان کو حاصل تھا وہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، اختلافی موضوعات پر بھی متانت اور کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ، ان کی کافی تصانیف بازار میں موجود ہیں جن افراد نے ان کی تحریروں اور کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکیم لاسلام نے اختیار کردہ موضوعات کا ہر طرح حق ادا کیا ہے، علوم قاسی اور حکمت قاسمی کو جس طرح انہوں نے سمجھا اور پھر جس سہل ، سادہ اور آسان انداز میں اس کو بیان کیا وہ انہیں کا حصہ ہے، مسودات کی صورت میں بھی ان کے کافی علمی اور فکری شہ پارے موجود ہیں، گرانقدر مقالات اور قیمتی مضامین کا بڑا ذخیرہ الگ سے اپنی اہمیت کا احساس دلاتا ہے، تصنیف و تالیف کا کام سفر و حضر دونوں حالتوں میں جاری رہتا، سفر ٹرین کا ہو یا ہوائی جہاز کا وہ دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو کر لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے۔‘‘ (میرے عہد کے لوگ صفحہ ۴٧)

حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر علیہ الرحمہ کی عظیم و ادبی شخصیت گوناں گوں کمالات و صفات سے مزین تھی مگر بنیادی طور سے آپ بلند پایہ استاذ اور ایک ممتاز ادیب تھے۔ 

قدرت نے مولانا مرحوم کو قلم کی لاجواب دولت بخشی تھی۔ بلکہ وہ قلم کے ساتھ پلے بڑھے اور اسی کے ساتھ جوان بھی ہوئے اخلاص کے ساتھ زبان و ادب کے میدان میں خدمات انجام دیں اور زبان و قلم کی روشن یادیں چھوڑ کر رخصت ہوگئے 

آج حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ کو ایک سال ہو گیا لیکن ان کی یادیں،اُن کی باتیں یاد آرہی ہیں اور آتی رہیں گی اللہ تبارک و تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور مولانا کو وہاں کی راحتیں نصیب ہوں (آمین)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے