65a854e0fbfe1600199c5c82

ہم نے ٹیکنالوجی کے ہاتھوں کیا کھویا ہے؟

 


*ہم نے ٹیکنالوجی کے ہاتھوں کیا کھویا ہے؟*

٭٭٭

ذرا سوچ کر بتائیے کہ

آپ کو آخری بار تنہائی کے لمحات کب نصیب ہوئے تھے؟

یاد رہے ،تنہائی کہتے ہیں، جب آپ اور خدا کے سوا تیسرا کوئی نہ ہو۔

نہ بنفس نفیس اور نہ ڈیجیٹل میں۔


سوچ میں پڑ گئے ناں؟

جی ہاں! خود ہمیں بھی سوچنا پڑرہا ہے۔

عرصہ ہوا، خالص اپنے ساتھ کچھ وقت گزارے ہوئے،


سچی بات ہے کہ موبائل کی وجہ سے ہماری تنہائی بھی ختم ہوگئی اور تنہائی کے ساتھ جڑے تمام اچھے احوال بھی۔


ٓقربت ذات کا لطیف احساس اور اس کے نتیجے میں خشیت تو بہت اونچی بات ہے،

وہ رات کی تنہائی، سکون، یکسوئی، خاموشی، اور وہ مصنوعی روشنی سے آزاد پرفسوں ماحول اور تاروں بھرا آسمان،

یہ سب بھی جیسے خواب و خیال ہوکر رہ گئے ہیں۔


اور نہ صرف تنہائی، بلکہ موبائل نے ہم سے ہمارے تخیل کی اونچی پرواز، ہمارے احساسات کی گہرائی بھی چھین کرسب کچھ سطحٰی سا کردیا ہے، حتیٰ کہ حرمین شریفین سے وابستہ تمام ترشوق اور کفییات کو بھی!


ذرا آج سے کچھ صدی قبل کے مسلمانوں کو ذہن میں لائیے۔

مسلمان حرمین حاضری کے لیے جیسے تڑپتے ہوں گے، کیا اس کا ہم تصور بھی کرسکتے ہیں؟


کیوں کہ انھوں نے اللہ کے گھر کو، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مسجد اور روضے کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا، بس پڑھ پڑھ کر یا سن سن کر اپنے اپنے تخیل میں عقیدت کے رنگ بھرے ہوں گے۔


اور عقیدت کے یہ سارے رنگ خالص ان کے اپنے ہوتے ہوں گے، جس میں کسی غیر کی کوئی شرکت نہ ہوتی ہوگی۔


لیکن آج کہ جب تصاویر اور ویڈیوز ہی کی بھرمارنہیں، لائیو چینل چوبیس چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں، جو وہاں گزر رہے عین اِس لمحے کا منظرکشی مختلف زاویوں سے کرکے آپ کو دکھا رہے ہیں، تو ذرا دل پر ہاتھ کر ایمان سے بتائیے کہ زیارت کی وہ تڑپ اور ذوق وشوق جو پچھلے وقتوں کے مسلمان کو نصیب ہوتا ہوگا، کیا اس کا ذرہ بھی ہمیں نصیب ہوسکتا ہے؟


سوچیے ذرا، کچھ صدی قبل کے کسی مسلمان کو یہ بتایا جاتا کہ بس اگلے ایک منٹ میں تم حج ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے، خانہ کعبہ اور حضور کے روضے کی زیارت کرلو گے تو وہ فرط شوق سے دیوانہ نہ ہوجاتا۔

٭

سچ مچ موبائل نے محض دو عشروں میں ہمارا صدیوں کا اثاثہ چھین لیا ہے،

اگرچہ بدلے میں کچھ دیا بھی ہے لیکن وہ نسبتا بہت کم اور تھوڑا ہے!


فاصلہ ختم ہوا ہے اور وقت بھی… تو ہر تعلق جیسے سطحی سا ہوگیا ہے۔


اچھا چلیے ذرا کچھ دیر کو ہماری انگلی پکڑ ماضی کا سفر کیجیے،


یہ سترھویں صدی ہے!


آپ کئی دنوں پر مشتمل نہایت پرمشقت سفر کرکے اور پیسے خرچ کرکے کسی رشتے دار یا دوست سے ملنے جارہے ہیں۔

برسوں سے ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھی، ایک دوسرے کی آواز نہیں سنی۔ ایک دوسرے کے حال احوال بھی بس ٹوٹے پھوٹے اور مہینوں کے بعد ملنے والے کسی خط کے ذریعے ملے ہیں۔


سو اب ملاقات کا منظر ذرا متصور کیجیے۔

جب برسوں کے بعد آپ اپنے قریبی عزیز کے دروازے پر دستک دیں گے تو آپ کا دل کیسا دھڑکتا ہوگا؟


اور جب دروازہ کھلے گا اور آپ میزبان کو، میزبان آپ کو دیکھے گا تو وہ کیسا جادو بھرا لمحہ ہوگا؟


اور پھر دو تین ماہ کی مہمان نوازی اور بڑی جم کر اور خوشدلی کے ساتھ کی گئی مہمان نوازی کے بعد اب الوداع کہنے کا وقت ہے تو اپنے وطن لوٹتے ہوئے الوداعیہ لمحات کیسے جاں گداز دلسوز ہوں گے؟

جی ہاں!میزبان اور مہمان ایسے پچھاڑیں کھاتے ہوں گے جیسے آپس میں وہ جدا نہیں ہورہے ہیں، جسم سے جان جدا ہورہی ہے۔ 


لیکن اب!؟

اب ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے برسوں قریبی رشتے داروں سے ملنا نہیں ہوتا۔

کیوں کہ اسمارٹ فون نے تو فاصلے ختم کردیے ہیں۔ دس سیکنڈ بھی نہیں لگتے، آپ ویڈیو کال میں ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں، باتیں کرلیتے ہیں۔ منٹ منٹ کے احوال ایک دوسرے سے شیئر ہوجاتے ہیں۔ براہ راست نہ بھی شیئر کریں تو فیس بک اور واٹس ایپ اسٹیٹس یہ تک بتا دیتے ہیں کہ آج آپ نے کیا کھایا ، کیا پہنا ہے!


توپھر ملنے ، دیکھنے کی کیسی ہوک اور کیسا شوق؟


اور ذرا اسی چیز کو اللہ کے گھر کی زیارت کے سفر پر محمول کیجیے۔

وہ ڈیڑھ دو سال قبل گھر سے نکلنا،

سفر سے پہلے سب سے ملنا، اور یوں ملنا جیسے آخری بار ملتے ہوں،

پھر قدم قدم پر فضائل کے استحضار کے ساتھ راستے کی جان لیوا مشقتیں اٹھانا اور ان مشقتوں سے پریشان ہونے کی بجائے روحانی حظ اٹھانا،

اور وہ ہر گام پر دو گانہ، ہر منزل پر مراقب،

اور پھر جب چلتے چلتے، راستے کے دکھ بیماری، بھوک خوف برداشت کرتے کرتے،

 مہینوں کے بعد اللہ کے شہر سے چند کوس دور قافلہ پہنچتا ہوگا تو اندازہ لگائیے کہ فرط شوق کا وہ کیسا عالم ہوتا ہوگا؟


اور جب پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہوگی تو بدحال مسافر کی جان کھینچ کر آنکھوں میں نہ آجاتی ہوگی؟


اور پھر مکے سے مدینے کا سفر اور اس سفر کی عاشقانہ کیفیات!


اور جب شہر مدینہ قریب آتا ہوگا، تب!

اور جب کسی موڑ پر اچانک گنبد خضرا کی وہ پہلی دید نصیب ہوتی ہوگی تب!


تب عشق کی اس کگر پر کھڑے امتی کا حال متصور کرسکتے ہیں تو کیجیے کہ شوق کی اس پہلی نظر پر وہ کل جہاں کے خزانے تو کیا، خود اپنی جان اور آل اولاد قربان نہیں کر دیتا ہوگا؟


وہ احساسات اور کیفیات کیا آج الفاظ میں بھی بیان ہوسکتی ہیں؟


اور آج جب ہم بذریعہ وی لاگز حرمین حاضری سے بہت پہلے ہی مقدس شہروں کی ایک ایک گلی، ایک ایک ہوٹل اور بازار تک تفصیل سے دیکھ چکے ہوتے ہیں،


اور جب ہم کچھ گھنٹوں میں اڑ کر وہاں پہنچ جاتے ہیں،


اور جب ہمیں اپنی پہلی نظر سے زیادہ، اپنے سوشل حلقے کو وہ پہلی نظر دکھانے کا زیادہ شوق ہوتا ہے،


اور جب ہماری نظر اور کعبے کے درمیان بے حجابی کی بجائے موبائل کیمرے کا حجاب ہوتا ہے،


تو بتائیے، پچھلے وقتوں کے مسافروں میں اور ہم میں کیا ادنی درجے کی بھی کوئی نسبت رہ جاتی ہے؟ 😢

***

محمد فیصل شہزاد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے